12 ستمبر، 2014

تنقید برائے تنقید

ایک مہینہ ہونے والا ہے لوگ گھروں سے باہر ہے۔ تمام لوگ بہتری کے لیے نکلے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کچھ بہتری آئے گی۔ اگر اچھے کام کو غلط طریقے سے کیا جائے تو وہ کام بھی اچھا نہیں رہتا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر طرف سے تنقید برائے تنقید ہو رہی ہے۔ ایک طرف سے الزام لگائے جاتے ہیں کہ جلسوں میں ناچ گانا ہو رہا ہے۔ دوسری طرف سے اصلاح کرنے کی بجائے پہلی طرف والوں کے جلسوں کا ناچ گانا نکال کر دیکھا دیا جاتا ہے۔
ایک پارٹی بیان دیتی ہے کہ عمران خان کتوں کو پیار دیتا ہے، کتوں کو پالتا ہے ایسا بندہ ہمارا لیڈر نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری پارٹی کے لوگ قائد اعظم کی تصویریں نکال کر لے آتے ہیں جس میں انہوں نے بھی کتوں کو پکڑا ہوتا ہے۔
بیان دینے والے کو یہ ہی نہیں پتہ ہوتا کہ وہ بیان کیوں دے رہا ہے اور کس وجہ سے دے رہا ہے۔ دونوں ضد میں لگے ہوئے ہیں نا یہ لچک دیکھاتے ہیں اور نا ہی وہ لچک دیکھاتے ہیں۔ عوام ویسے ہی بے وقوف بنی ہوئی ہے۔ جو لوگ ایک مہینے سے گھر نہیں گے وہ کام پر بھی نہیں گے ہونگے ان کے روزگار کا کیا ہوگا۔ اور کچھ لوگ تو سارا دن کام پر ہوتے ہیں اور رات کو وہاں چلے جاتے ہیں۔
یہاں سے حکومت نے راستے بند کے ہوئے ہیں اور لوگوں کو جانے نہیں دیتے۔ عیجب قسم کی صورتِ حال بنی ہوئی ہے ایک غلط کہتا ہے تو درسرا اس کے مقابلے میں زیادہ غلط کہتا ہے۔ اور یہ تنقید برائے تنقید کا کھیل چل رہا ہے جو پتہ نہیں کب ختم ہو گا