26 اپریل، 2014

کیا فاتحہ مقتدی پر واجب ہے؟؟ افادات حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ۔۔۔۔Download Free Book

http://archive.org/download/KyaMuqtadiPerSurahFatihaWajibHaiByShaykhMuftiSaeedAhmadPalanpuri/KyaMuqtadiPerSurahFatihaWajibHaiByShaykhMuftiSaeedAhmadPalanpuri.pdf

کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد  :
چونکہ اس مضمون میں چار  اصطلاحات  (یعنی جمع صوری و جمع حقیقی اور جمع تاخیر وجمع تقدیم )   کا ذکر کثرت سے ہے
لھذا میں نے مناسب جانا کہ پہلے ان اصطلاحات  کی ذرا   وضاحت کی جائے۔ لھذا  انکی وضاحت  نمبروار درج ذیل ہے:
(۱) ۔۔۔۔ جمع صوری کی تعریف :
جمع صوری وہ جمع ہوتی ہے کہ جسمیں  ایک نماز اپنے اخری وقت میں پڑھی جائے اور دوسری نماز اپنے اول وقت میں پڑھی جاے۔
مثلا جمع بین  الظہر والعصر،  کہ ظہر کو اپنے اخری وقت میں پڑھا جائے ،پھر جب چند منٹ بعد عصر کا وقت ہوجائے تو پھر عصر کی نماز پڑھی جائے۔
اسی طرح مغرب اور عشاء کا مسئلہ ہے۔جمع صوری اسکو اسلئے کہا جاتا ہے کہ صورت میں تو یہ جمع نظر آتی ہے ، لیکن حقیقت میں ہر نماز اپنے وقت میں ادا ہوئی ہے۔
(۲)  ۔۔۔۔ جمع حقیقی کی تعریف:
وہ جمع ہوتی ہے کہ جس میں ایک نماز کے وقت میں اس وقت کے نماز کے ساتھ دوسرے وقت کی نماز بھی پڑھی جائے۔
مثلا   جمع بین الظہر والعصر،   کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عصر کے دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا جائے۔
یا    عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نماز کو ملا کر پڑھا جائے۔اسکو  جمع حقیقی اسلئے کہا جاتا ہے کہ  یہاں حقیقت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرکے پڑھا جاتا ہے۔ لھذا  اسکو جمع حقیقی کہتے ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔جمع تاخیر کی تعریف:
یہ وہ جمع ہے کہ جسمیں پہلے وقت کے نماز کو دوسرے وقت کے نماز میں مؤخر کرکے  پڑھی جائے، مثلا ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے عصر کے وقت میں پڑھی جاے ،  چونکہ اول نماز ظہر کو مؤخر کیا گیا ہے ، لھذا    اسکو جمع تاخیر کہتے ہیں۔
(۴) جمع تقدیم کی تعریف:
یہ وہ جمع ہے کہ اسمیں آخری نماز کو پہلے نماز کے وقت میں مقدم کرکے پڑھا جاتا ہے۔ مثلا عصر کی نماز کو  مقدم کرکے ظہر کی نماز میں پڑھنا ۔ چونکہ اسمیں  آخری نماز  کو مقدم کرکے اول نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے ، لھذا  اسکو جمع تقدیم کہا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں نفس مضمون  کی طرف ، تو واضح  رہے کہ جمع بین الصلوٰ تین  بلا عذر تمام ائمہ اربعہ کے نزد  ناجائز ہے۔  پھر عذر کے وقت جمع حقیقی ہوگا  یا  جمع صوری تو اسکے بارے میں علماء  کے دو رائے ہیں  ۔ امام  ابو حنیفہ  رحمہ اللہ تعالیٰ   کے نزد جمع بین الصلواتین  سے مراد جمع صوری ہے،
 ماسوائے  عرفات اور  مزدلفہ کے ، کہ ادھر بالاتفاق تمام  امت مسلمہ کے  نزد  جمع  بین الصلواتین  سے مراد جمع حقیقی ہے ۔ اور اسکے علاوہ احناف  کے  نزد  کہیں بھی جمع بین الصلواتین  حقیقی جائز نہیں ہے۔
جبکہ دوسرئے ائمہ کرام  کہتے ہیں کہ  نہیں بلکہ جمع بین الصلواتین حقیقی  ثابت ہے اور پھر دلائل کے طور پر حضرت انس اور ابن عباس کی وہ احادیث لاتے ہیں جس میں یہ بات مذکور ہے کہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کے درمیان جمع فرمایا ۔
اور اس مفہوم کے روایات تقریبا تمام صحاح ستہ میں مذکور  ہیں۔
 نیز ابوداود کی  معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سے  جمع تقدیم کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
لیکن ان تمام احادیث سے جن میں لفظا جمع حقیقی کا ثبوت ملتا ہے ، تو ان احادیث  کی طرف سے  احناف  جواب کرتے ہیں ۔
چنانچہ احناف کہتے ہیں کہ نماز کا اپنے وقت میں پرھنا  قرآن سے ثابت ہے اور قرآن دلیل قطعی ہے ۔
جبکہ تمام  احادیث جن سے جمع بین الصلواتین کا ثبوت ملتا ہے وہ خبر احاد ہیں ۔ لھذا  خبر واحد حدیث سے قرآن کا قطعی حکم نہیں بدلا جاسکتا۔
چنانچہ قران مجید میں ہے کہ:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ۔ (سورہ النساء الایۃ ۱۰۳)
ترجمہ:  بےشک نماز تو مومنوں پر مقررہ وقت پر فرض ہے۔
(ترجمہ از تفسیر ابن کثیر)
اس ایت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی نے لکھا ہے کہ:
((  ای فرضا محدود الاوقات  لایجوز اخراجھا عن اوقاتہا فی شیئ من الاحوال)) ۔
ترجمہ: یعنی فرض ہے اور محدود ہے اپنے اوقات میں اور کسی حال میں بھی اپنے وقت سے اس نماز کا نکالنا جائز نہیں ہے۔
اور جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نے لکھا ہے کہ (( کتابا  مکتوبا ای مفروضا (ترجمہ: یعنی فرض کیا گیا)
موقوتا ای مقدرا وقتھا فلا تؤخرعنہ۔ (ترجمہ: یعنی اسکا وقت مقرر ہے ، تو اس سے مؤخر نہ کیا جاے)
اسی طرح قران مجید میں ہے کہ:  فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔
(سورہ ماعون)
ترجمہ: ان نمازیوں کیلئے ویل نامی جھنم کی جگہ ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔ (ترجمہ از تفسیرابن کثیر)
نیز فرمایا کہ :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (بقرۃ ایت ۲۳۸)
ترجمہ:   نمازوں کی حفاظت کرو۔(ابن کثیر)
اس ایت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی لکھتا ہے کہ  { حافظوا عَلَى الصلوات } بالأداء لوقتها والمداومة عليها۔
(ترجمہ: یعنی اپنے وقت پر ادائیگی اور اسپر مداومت کے ساتھ اس نماز کی حفاظت کرو۔)
ان تمام آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نمازوں کے اوقات مقرر ہیں اور انکی محافظت واجب ہے۔
 اور ان اوقات  کی خلاف ورزی باعث عذاب ہے۔ اور ظاھر ہے کہ یہ آیات قطعی الثبوت و الدلالۃ ہے  ۔
 اور احادیث جو کہ اخبار احاد ہیں  وہ اسکا مقابلہ بالکل نہیں کرسکتے۔
 کہاں کتاب اللہ کا حکم قطعی اور کہاں  حدیث خبر واحد ۔
تو اب مسئلہ یہ بن گیا کہ  احادیث سے بظاھر تو  جمع  بین الصلواتین کا ثبوت ملتا ہے ،اور قران کہتا ہے کہ ہر نماز اپنے وقت میں پڑھنا فرض ہے۔
 تو یہ تو قران اور حدیث کا بظاہر مقابلہ واقع ہو گیا ہے۔
اب اگر ہم قران پر عمل کرتے ہیں تو ظاہر ہے وہ حدیث کے مقابلے میں قوی ہے ، لیکن اسطرح تو کتاب اللہ پر عمل ہوجاے گا
لیکن پھر سنت نبوی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم  رہ جاے گا ۔
تو میرے پیارے اسکا جواب یہ ہے کہ اگر تم  ان تمام احادیث جو کہ اخبار احاد ہیں کی مناسب تشریح اور توضیح کرو تو کبھی بھی قران اور حدیث کا تعارض نہیں آے گا۔
 لیکن اگر تم نے  ظاہری حدیث پر فقط عمل کرنا شروع کیا اور حدیث کی مناسب تحقیق نہ کی اور نہ اسمیں فکر و تدبر کیا
 اور حکمت و بصیرت سے کام نہیں لیا ،  تو پھرتمہاری بے فکری کی وجہ سے تم  قران اور حدیث کا تعارض کراوگے۔
 حالانکہ  قرآن و حدیث میں تعارض نہیں ہے۔
احناف کے نزد خود  دیگر احادیث سے ثا بت ہے کہ  جمع بین الصلواتین سے جمع حقیقی مراد نہیں ہے  بلکہ  جمع صوری مراد ہے۔
جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)   صحیح بخاری میں ہے کہ :  حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ قَالَ سَالِمٌ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ الْمَغْرِبَ فَيُصَلِّيهَا ثَلَاثًا  ثُمَّ يُسَلِّمُ ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ۔
( باب ھل یؤذن او یقیم اذا جمع بین المغرب والعشاء)
ترجمہ:  { عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ میں نے نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو دیکھا ہے ، جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم  کو سفر میں جانے کی جلدی ہوتی  تو  نماز مغرب  کو مؤخر کرتے ، یہاں تک کہ مغرب  اور عشاء کو جمع کرتے۔
سالم کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما   بھی اسی طرح کرتے، جب اسکو سفر کی جلدی ہوتی،  اور نماز مغرب کا  وقت  قائم  ہوجاتا تو  تین رکعت نماز مغرب  پڑھتے ، پھر سلام پھیر کر تھوڑی دیر انتطار کرتے حتی کہ  عشاء کا وقت قائم ہوجاتا }
اس حدیث میں صراحت ہو رہی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب سے فارغ ہو کر  کچھ دیر انتظار کرتے تھے اور اسکے بعد عشاء  پڑھتے تھے۔ اس انتظار کا کوئی محمل نہیں ہوسکتا سوائے اسکے کہ وہ وقت عشا  کے دخول کا یقین  کرنا چاہتے  تھے۔
اورخود حافط ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس میں جمع صوری پر دلیل ملتی ہے۔(فتح الباری ،ج ۲،صفحہ ۴۶۵)
(۲)   اس سے زیادہ صریح روایت ابوداود میں  نافع عن عبداللہ بن واقد کے طریق سے مروی ہے ۔
 ”  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ أَنَّ مُؤَذِّنَ ابْنِ عُمَرَ قَالَ الصَّلَاةُ قَالَ سِرْ سِرْ حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ صَنَعَ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتُ  ”
(باب الجمع بین الصلوٰتین)
ترجمہ: { ابن عمر کے مؤذن نے کہا کہ نماز ، تو ابن عمر نے کہا کہ  جاؤ جاؤ(یعنی سفر جاری رکھو) حتی کہ غروب شفق سے تھوڑی دیر پہلے  سواری سے اترے  پھر نماز مغرب پڑھی ،پھر انتظار کیا حتی کہ شفق غروب ہوا  اور عشاء کی نماز پڑھی  پھر فرمایا کہ بےشک  جب حضور  صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو کسی کام میں جلدی ہوتی تو اسطرح کرتے جسطرح میں نے کیا ہے۔ }
امام ابوداود نے نہ صرف اس روایت پر سکوت کیا ہے بلکہ اسکا ایک متابع بھی ساتھ میں ذکر کیا ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ
 قَالَ أَبُو دَاوُد وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ ذَهَابِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا۔
ترجمہ: { امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کہتا ہے  اور اس بات کو عبد اللہ  بن العلاء نے نافع سے  روایت کی ہے کہ ( ابن عمر اس وقت تک چلتے رہے ) یہاں تک کہ  وہ غروب شفق کے قریب ہوگئے، پھر سواری سے اترے اور  نمازمغرب اور نمازعشاء کو جمع کیا۔}
نیز امام دار قطنی نے بھی  اپنی سنن میں یہ روایت متعدد طرق سے نقل کی ہے اور اسپر سکوت کیا ہے۔
(۳)    صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ :
  عَنْ عَمْرٍو عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا قُلْتُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِأَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ قَالَ وَأَنَا أَظُنُّ ذَاكَ ۔
(صحیح مسلم )
ترجمہ  : { روایت ہےعمرو  سے ، وہ  روایت کرتا ہے جابر بن زید سے ،  وہ روایت کرتا ہے ابن عباس سے کہ ابن عباس نے کہا کہ  میں نے نماز پڑھی ہے حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے ساتھ  آٹھ رکعت   (چار ظہر کے اور چار عصر ) ایک ساتھ   اور سات  (تین مغرب  اور چار عشاء ) ایک ساتھ۔
(یہ راوی عمرو کہتا ہے)  کہ میں نے ابا الشعثاء یعنی  جابر بن زید سے  کہا کہ میرا گمان یہ ہے کہ  حضور نے نماز ظہر کو مؤخر کیا اور نماز عصر کو مقدم کیا  ، اور نماز مغرب کو مؤخر کیا اور نماز عشاء کو مقدم کیا،  تو    اباالشعثا ء نے کہا  کہ  میرا  بھی یہ گمان ہے }
اس روایت میں حدیث کے دو  راویوں کا گمان  احناف کے عین مطابق ہے، کہ یہاں جمع  بین الصلوٰتین سے مراد جمع صوری ہے۔
یہ تمام روایات جمع صوری پر بالکل صراحت کے ساتھ دلالت کرتے  ہیں۔
 (۴)    مؤطاء امام  محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت ہے کہ  :  قال محمد بلغنا عن عمر بن الخطاب انہ کتب فی الآفاق ینہاھم ان یجمعوا بین الصلٰوتین و یخبرھم ان الجمع بین الصلوٰ تین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر۔
 قال محمد اخبرنا بذالک الثقات عن العلاء بن الحارث عن مکحول
(مؤطاء امام محمد ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر والمطر)
ترجمہ :{  امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ ہم کو عمربن خطاب   رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے دور دراز علاقوں میں  پیغام لکھوا کر بھیجا تھا  ، اس پیغام میں  لوگوں کو   جمع  بین الصلوٰتین  سے منع کر رہے تھے ،  اور انکو خبردار کر رہے تھے کہ  دو نمازوں کو  ایک وقت میں جمع کرنا  کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتا ہے  کہ ہم کو ثقہ  لوگوں نے  مذکورہ  بات کی خبر دی ہے۔}
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ ثانی نے جمع بین الصلوٰتین حقیقی   کو منع کیا تھا۔
(۵)  آئمہ ثلاثہ یا  جمع بین الصلوٰتین  جمع حقیقی کے قائلین بھی بعض جگہوں میں جمع بین الصلوٰتین کو احناف کی طرح  جمع صوری پر ہی محمول کرنے پر مجبور ہیں۔مطلب یہ کہ جہاں مجبور  ہیں   وہاں تو احناف کا مسلک استعمال کرتے ہیں لیکن جہاں  انکی مجبوری ختم  تو  پھر احناف کے مخالف بن جاتے ہیں۔
مثلا     ترمذی کی یہ روایت کہ  :
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ۔
(ترمذی ،باب الجمع بین الصلوٰ تین فی الحضر)
ترجمہ: { ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ظہر و عصر  اور  مغرب و عشاء کے نمازوں درمیان بلا کسی خوف اور بارش کے جمع فرمایا ہے }
اس روایت  کے بارئے  تمام مذاہب کے علماء  اور آئمہ کرام کہتے ہیں کہ اس سے  احناف کی طرح جمع صوری و فعلی مراد ہے ،  اور یہاں اس روایت میں جمع سے مراد جمع حقیقی نہیں ہے۔
اسی لئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فتح الباری  (باب تاخیر الظھر الی العصر) میں اعتراف کیا ہے کہ اس روایت میں جمع صوری ہی مراد لینا  بہتر ہے۔
 اور حقیقت یہی ہے کہ  اس حدیث  کی توجیہ کا  اسکے  علاوہ   اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
اور جب اس روایت میں جمع صوری مراد لی جائے گی تو لازما  دوسری  احادیث میں بھی جمع صوری مراد ہوگی۔
کیونکہ اگر جمع سوری مراد لی جاے تو تمام روایات اور احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے
 اور ان  روایات کا آیات قرانیہ سے بھی کوئی ٹکراو نہیں آتا لیکن اگر  ان احادیث میں جمع صوری مراد نہ لیا جائے
 بلکہ جمع حقیقی مراد لیا جاے ،  تو  نہ تو ان تمام احادیث میں تطبیق ہوتی ہے اور  ان  احادیث کا اوپر ذکر شدہ آیات قرآنیہ سے بھی ٹکراؤ لازما  آتا ہے۔
(۶)  احادیث میں جہاں بھی  جمع بین الصلوٰتین   کا ذکر ہے تو ظہر اور عصر ،  یا  مغرب اور عشاء کے جمع  کا  ذکر ہے۔
 اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد جمع حقیقی ہے تو  کیوں عصر اور مغرب  یا  فجر اور ظہر کو جمع نہیں کیا گیا ۔
 ظاہر ہے کہ اگر عصر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے تو  ہونا  تو یہ چاہیے تھا
کہ  پھر عصر اور مغرب کو بھی جمع  کیا  جاتا   کیونکہ جمع حقیقی کی ایک صورت  یہ بھی ہے۔
یا  اگر مغرب کی نماز کو عشاء کے وقت  میں   جمع کیا ہے  ،   تو  ہونا  تو  یہ  چاہیے تھا کہ  فجر اور عشاء کو بھی جمع  کیا جا تا ؟
 جو لوگ  جمع  بین الصلوٰتین  کو جمع حقیقی کہتے ہیں انکے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔
لیکن الحمدللہ کہ احناف  نے اس اعتراض کا  جواب اسطرح  کیا ہے کہ ہم احناف جمع کو جمع صوری مراد لیتے ہیں
 اور نماز عصر اور مغرب ، یا   نماز عشاء اور فجر کے درمیان وقت مکروہ  ہے ۔  لھذا یہاں جمع صوری ممکن نہیں ،  اسلئے احادیث  میں کہیں بھی عصرو مغرب  یا  عشاء وفجر کو جمع نہیں کیا گیا۔
 اور اس  سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے جہاں بھی جمع بین الصلوٰتین   کیا ہے تو وہ جمع صوری تھی اور جمع حقیقی نہیں تھی۔
 اب   قائلین جمع  حقیقی کی طرف سے احناف پر اعتراجات کئے جاتے ہیں
(۱)    ایک اعتراض  یہ ہے کہ  صحیح مسلم کی بعض روایات ایسی ہیں کہ جہاں جمع صوری مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ ۔
مثلا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ:  
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَجِلَ عَلَيْهِ السَّفَرُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْرِ فَيَجْمَعُ بَيْنَهُمَا وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ۔
(صحیح مسلم با ب جواز الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ: { جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم پر سفر کی جلدی ہوتی تو  ظہر کو  اول وقت عصر تک مؤخر کرتے پھر ان دونوں نمازوں  کو جمع کرتے اور  نماز مغرب کو مؤخر کرتے ، یہاں تک کہ نماز مغرب اور نماز عشاء کو جمع کرتے  جب شفق غائب  ہورہا تھا }
جواب:
اس روایت  میں  ذکر ہے کہ ( يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى أَوَّلِ وَقْتِ الْعَصْر) لیکن اس سے جواب یہ ہے
کہ یہاں غایت مغیا  میں داخل نہیں ہے ۔
کیونکہ وقت ظہر الگ ہے اور وقت عصر الگ ، لھذا یہاں مراد یہ ہوگا کہ نماز ظہر کو اپنے اخر وقت تک مؤخر  کیا گیا ہے ۔ اور نماز عصر کو اپنے اول وقت میں ادا کیا گیا ہے۔
پھر ذکر ہے کہ   (حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ ) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب ایسے وقت میں پڑھی کہ جبکہ شفق غائب ہونے کے قریب تھا۔
 اور ہماری اس بات کی تائید  ابوداود  کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی اہلیہ صفیہ کی بیماری کے سبب تیز رفتاری سے جا رہے تھے تو انہوں نے مغرب کی نماز مؤخر کرکے پڑھی،
 اس تاخیر کے بیان میں ابوداؤد کی مذکورہ  روایت کے الفاظ ہیں
 ”فسارحتی غاب الشفق فنزل فجمع بینھما” (ابوداؤد ،باب الجمع بین الصلوٰتین)
ترجمہ:{  پس جا رہے تھے ،یہاں تک کہ شفق غائب ہوا  ، پھر سواری سے اترے  اور جمع بین الصلوٰتین کی}
ایک روایت میں ہے کہ
حتی کان بعد غروب الشفق ۔ (جامع الاصول ،ج  ۵  رقم الحدیث  ۴۰۳۷)
ترجمہ: { یہاں تک کہ تھے غروب شفق کے بعد}
ایک روایت میں ہے کہ
حتی اذا کان بعد ما غاب الشفق۔(دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ: { یہاں تک  کہ جب تھے شفق کے غائب ہونے کے بعد }
ایک روایت میں ہے کہ
حتی اذا کاد یغیب الشفق (دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ:{ یہاں تک  کہ جب قریب تھا کہ شفق غائب ہوجائے}
اور ایک روایت میں ہے کہ
حتی اذا کاد ان یغیب الشفق   (دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ:{ یہاں تک  کہ جب قریب تھی  یہ  بات کہ شفق غائب ہوجائے
اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ   (حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ) ۔
ترجمہ: { جب شفق غائب  ہورہا تھا }
اب ان تمام روایات میں تطبیق کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، اوروہ یہ کہ
حتی اذا کاد ان یغیب الشفق
{ترجمہ:  یہاں تک  کہ جب قریب تھی  یہ  بات کہ شفق غائب ہوجائے}
 کو اصل قرار دے کر دوسری  روایات کو اسی پر محمول کیا جائے۔
 اور کہا جاے کہ راویوں نے روایت بالمعنی کیا ہے۔چونکہ اوقات قریب قریب تھے  لھذا کسی نے
 ”غاب الشفق {شفق غائب ہوا تھا} کہا
      اور کسی نے ”کاد یغیب الشفق { یہاں تک  کہ قریب تھا کہ شفق غائب ہوجائے} کہا ،
کسی نےقبل غیبوبۃ الشفق{غروب شفق سے قبل}  کے الفاظ سے واقعہ کو بیان کیا ہے۔
اور یہ تطبیق اور توجیح اسلئے صحیح ہے کہ  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما   کی پیچھے صریح روایت گذر چکی ہے کہ انہوں نے جمع صوری پر عمل کیا ہے۔ اور ابن عمر کی ا س روایت کے بارے میں کئی تائید ات موجود ہیں۔
مثلا صحیح بخاری کی روایت کہ     ” قلما یلبث حتی یقیم العشاء
{ تھوڑے ٹہرے یہاں تک کہ  عشاء کا وقت قائم  ہوا}
(باب ہل یؤذن او یقیم اذا جمع بین الصلوٰتین)
اور ابوداؤد کے الفاظ کہ :
حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ۔ (باب الجمع بین الصلوٰتین)
ترجمہ:{  حتی کہ جب  غروب شفق سے تھوڑی  دیر پہلے  سواری سے اترے  پھر نماز مغرب پڑھی ، پھر انتظار کیا حتی کہ شفق غروب ہوا     اور عشاء کی نماز پڑھی }
اور اسی طرح دار قطنی کے الفاظ   حَتَّى إِذَا كَادَ يَغِيبُ الشَّفَقُ  کے بعد کے الفاظ اسطرح ہیں کہ
 نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ صَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا نَابَتْهُ حَاجَةٌ صَنَعَ هَكَذَا.
 (دارقطنی، باب الجمع بین الصلوٰتین فی السفر)
ترجمہ:  { یہاں تک  کہ جب قریب تھا کہ شفق غائب ہوجائے (کے بعد حدیث  کے الفاظ یہ ہیں کہ) پھر سواری سے اترے  اور نماز مغرب پڑھی ، پھر انتظار کیا  یہاں تک کہ شفق غائب ہوا ، پھر نماز عشاء پڑھی ، پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا   کہ جب حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو کوئی کام درپیش ہوتا  تو  اسطرح کرتے }
او کما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام
یہ تمام روایات بھی  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی جمع صوری پر عمل کرنے کی تائید کرتے ہیں۔
لھذا  انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں بھی یہی معنی مراد لیا جاسکتا ہے کہ    حین یغیب الشفق  سے مراد شفق غروب ہونے کے قریب تھی۔
اس وجہ سے کہ ان الفاط کے حقیقی معنی کسی صورت مراد نہیں لئے جاسکتے ۔ اسلئے کہ غیبوبت شفق  ایک لمحے کی چیز ہے  اور اس لمحے میں دونوں نمازیں پڑھنا ممکن نہیں ہے۔
(۲)  دوسرا  اعتراض  یہ ہے کہ جمع صوری کو جمع نہیں کہا جاسکتا  ، اسلئے کہ دونوں نمازیں اپنے وقت پر پڑھی جاتی ہیں۔اور جمع تو اس وقت ہوتا ہے جب ایک وقت میں دونوں نمازیں جمع کی جائیں۔
جواب:
جمع صوری کو جمع کہنا حدیث سے ثابت ہے ۔ آپ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ :
  أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا  ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ۔
(ترمذی ، بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ)
مفہوم حدیث  : { تم ظہر کو مؤخر کرو اور عصر کو مقدم کرکے  دونوں نمازوں کو جمع کرکے پڑھو، پھر مغرب کو مؤخر کرکے  اور عشاء کو مقدم کرکے  دونوں نمازوں کو جمع کرکے پڑھو }
اس روایت میں خود حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے جمع صوری کو جمع بین الصلوٰتین کہا ہے۔
لھذا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔
(۳)  تیسرا  اعتراض  یہ ہے کہ  جمع بین الصلوٰتین  کا منشاء تو آسانی پیدا کرنا ہے اور آسانی تو جمع حقیقی میں ہے ۔ جمع صوری میں تو کوئی آسانی نہیں ہے۔
جواب:
جمع صوری میں بہت آسانی ہے ۔ اسلئے کہ مسافر کو اصل تکلیف بار بار سواری سے اترنے اور چڑھنے میں ہے،
 نیز تکلیف بار بار وضؤ  کرنے میں ہے ۔ تو جمع صوری میں ان تمام تکالیف کی رعایت کی گئی ہے۔ لھذا اعتراض ختم ۔
(۴)   چوتھا  اعتراض  یہ ہے کہ احادیث میں جمع تقدیم کا بھی ذکر ہے۔اور یہ احادیث ابوداؤد شریف میں بھی ہیں ۔ اور جمع صوری میں جمع تقدیم  کرنا
 نا ممکن ہے ۔
جواب:
جمع تقدیم کی تمام روایات  غریب،ضعیف اور معلول  ہیں۔ کوئی صحیح حدیث اس باب میں ثابت نہیں ہے۔
خود امام  ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کا مشہور قول ہے کہ :
”لیس فی تقدیم الوقت حدیث قائم ،،۔(مرقات،ملا علی قاری)
      ترجمہ: {نمازجمع تقدیم کے بارے میں کوئی حدیث قائم نہیں ہے}
اس تمام  بحث سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ  جہاں جہاں احادیث میں جمع بین الصلوٰتین کا ذکر ہے
 تو اس سے مراد جمع صوری ہے۔
 اور جن روایات میں ” بعد غروب الشفق یا دخول وقت عصر”  کا ذکر ہے
 تو  وہاں  راویان حدیث نے روایت بالمعنی  کی ہوتی ہے۔ اور یہ بات دلائل سے ثابت کی گئی ہے۔
اور اصل مقصد جمع بین الصلوٰتین کا   ظہر کا اخری وقت اور  عصر کا ابتدائی وقت اور  مغرب میں غروب الشفق کا اخری وقت  اور عشاء کا ابتدائی وقت مراد ہوتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔
اسکے علاوہ  ایک اور بات یہ بھی ہے کہ جمع صوری میں احتیاط زیادہ ہے بنسبت جمع حقیقی کے ، اس لئے کہ جمع صوری میں تو نماز اپنے وقت میں ہی  پڑھی جاتی ہے صرف اول و آخر وقت میں اسکو لایا جاتا ہے۔
جبکہ جمع حقیقی میں تو نماز سرےسے اپنے وقت سے نکال کر دوسرے نماز کے وقت میں پڑھی جاتی ہیں۔
لھذا اوفق بالقرآن یہ ہے کہ آدمی جمع حقیقی کے بجائے جمع صوری کرے ،
 نیز ان فقہی مباحث میں غلطی کا بھی  امکان ہوتا ہے ، اور اس امکان کی صورت میں ممکن ہے کہ جمع حقیقی  کا کرنے والا گناہ کبیرہ اور مخالفت قرآن کا مرتکب ہوجاے۔
لھذا جس طرح ہم دنیا کے نقصانات سے بچنے کیلئے احتیاط کرتے ہیں تو کیوں نہ دین میں بھی اس سے زیادہ احتیاط کیا جاے،
 ظاہر ہے کہ دنیا  فانی ہے اور اخرت باقی ہے۔
واللہ اعلم
وما توفیقی الاباللہ علیہ توکلت والیہ انیب

غیرمقلدین کے دعوے اوران کا عمل



عوام الناس کے سامنے تو اس فرقہ جدید کے علمبردار بڑے زور وشور سے تقلید ائمہ کی مذمت کرتے ہیں ، اوراس کوشرک وبدعت وضلالت گردانتے ہیں ، اورہمارے عُرف میں اس فرقہ جدید کا نام تو غیرمُقلد مشہور ہوگیا لیکن درحقیقت یہ بهی مُقلد ہیں اور سب سے بڑے مُقلد ہیں۔ اس فرقہ جدید میں شامل جولوگ ہیں بس انہیں کی اوهام ووساوس کو ہانکتے رہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ تقلید سے کسی کو کوئی مَفرنہیں ہے حتی کہ یہ لوگ ایک طرف تو دین میں ائمہ کی تقلید کوحرام گردانتے ہیں ، لیکن خود اسی تقلید میں مُبتلا نظرآتے ہیں ، کیونکہ ان کومعلوم ہے کہ تقلید کے بغیرکوئی چاره نہیں ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پهر عوام کے سامنے اس فرقہ جدید کے علمبردار تقلید کوشرک وبدعت وضلالت کیوں کہتے ہیں ؟؟

اس کا واضح جواب یہ ہے کہ عوام کواگر پوری حقیقت بتلادیں تو پهر تو اہل حق کے خلاف پروپیگنڈه کا سارا سلسلہ بند ہوجائے ، اوراگرعوام کو صحیح مسئلہ بتائیں تواس فرقہ جدید کی ساری تحریک ہی ختم ہوجائے ۔

اس فرقہ جدید کا دعوی ہے کہ دین میں ائمہ کی تقلید ناجائز وحرام وبدعت ہے ،اس لیئے مثلا جواہل اسلام امام ابوحنیفہ کی اجتہادی وفروعی مسائل میں تقلید کرتے ہیں ، ان کواس فرقہ جدید کی طرف سے کبهی مُشرک وبدعتی کا خطاب دیا جاتا ہے ، کبهی احبار ورُهبان واکابر کا پجاری کہا جاتا ہے ، کبهی تقلید کا مریض کبهی تقلیدی امت وغیره القابات سے پکارا جاتا ہے ، اور یہ سب کچھ تقلید ائمہ کی وجہ سے کہاجاتا ہے ، اب جو فرقہ دوسروں کو تقلید کی وجہ سے اس درجہ شدید الفاظ سے پکارتا ہے ، وه فرقہ خود بهی تمام مسائل میں تقلید ہی کرتا ہے ، لیکن اپنی تقلید کو وه تقلید نہیں کہتے ، اب اس طرز کوکیا کہاجائے جہالت وحماقت یا عداوت ومنافقت وشرارت ؟؟

فرقہ جدید کا دعوی ہے کہ دین میں ائمہ کی اجتہادات کی تقلید ناجائز وحرام وبدعت ہے ، اب یہ فرقہ جدید اپنے اس اصول پرقائم نہیں ہے ،میں اس ضمن میں ایک مثال عرض کرتا ہوں ۔مُحدثین کرام نے محض اپنےاجتہادات سے د"حدیث د" کے مختلف اقسام ذکر کیئے ہیں ، اور آج تک انهیں کی تقلید میں بلا چوں وچرا " حدیث  کے ان اقسام کو اس فرقہ جدید سمیت تمام اہل اسلام استعمال کرتے ہیں ، مثلاً: 


"المتواتر ، متواتر لفظی، ومتواتر معنوی، المشهور، المستفیض ، الخبرالواحد ،العزیز ، التابع ، الشاهد ، الاعتبار ، الشاذ ، المحفوظ ، المنكر ، الغریب ، المعروف ، المضطرب ، المقلوب ، المدرج ، مدرج المتن، ومدرج الإسناد ، المصحَّف ، تصحیف السمع ، تصحیف البصر ، المعلل ، المعل فی السند ، المعل فی المتن ، المعل فی السند والمتن ، المنقطع ، المرسل ، المعلق ، المعضل ، المدلس ، تدلیسالإسناد ، تدلیس الشیوخ ، المرسل الخفی ، المتصل ،المسند ، المعنعن ، المؤنئن ، المسلسل ، العالی ، النازل ، المزید فی متصل الأسانید،الصحیح لذاته، الصحیح لغیره ، الحسن لذاته ،الحسن لغیره ، الضعیف ، الخ"


یہ چند اقسام میں نے بطور مثال ذکرکیئے جس کو محدثین کرام متن وسند ، رُوَاة الحدیث ، ومراتب حدیث ، وغیره کے اعتبارسے استعمال کرتے ہیں ، اور یہ تمام اقسام واسماء واصطلاحات خالص اجتہادی ہیں ، محدثین کرام کے اجتہادات کا ثمره ہیں ، اسی لیئے اس باب میں محدثین کرام کے مابین اختلاف بهی پایا جاتا ہے جس کی تفصیل " اصُول حدیث " کی کتب میں موجود ہے ۔

ایسا ہی " جرح وتعدیل " کے باب میں مُحدثین کرام نے اپنے اپنے ظن واجتہاد سے مختلف مراتب واصطلاحات مُقر رکیئے ہیں ، اور آج تک انهیں کی تقلید میں بلا چوں وچرا ان اصطلاحات کو اس فرقہ جدید سمیت تمام اہل اسلام استعمال کرتے ہیں ، مثلا


"ثقة ، متقن ، ثبت ، جَید الحَدیثِ ، صدوق ، لا بأس به ، لیس به بأس ، حسن الحدیث ، مقارب الحدیث ، وَسَطٌ ، شیخ ، محدث ، صالح الحدیث ، صویلح ، ملحه الصدق ، لَینُ الحدیث ، لیس بالحافِظ ، معروف ، یكْتَبُ حدیثُهُ ، یعْتَبَرُ به ، لا یحتجُّ به ، لیس بذاك ، لیس بالقوی ، إلى الضَّعفِ ماهو ، تَعْرِفُ وَتُنْكِرُ ، سیء الحفظ ، فیه نظر ، ضعیف ، مضطرب الحدیث ، یخالِفَ الثِّقات ، لا یتابع على حَدیثه ، روى مناكیر أو روى أحادیث منكرة ، منكر الحدیث ، روى أحادیث معضلة أویروی المعضلات ، أستخیرُ اللهَ فیه ، لیس بشیء ، لاشیء ، لایعتبرُ به ، لیس بثقة ، متروك الحدیث ، تركه فلان ، لمْ یحدث عنہ فلان ، سكتوا عنہ ، کذاب ، دجال ، واه ،ذاهب الحدیث ، متهم بالكذب حدیثه یهوی ، الخ  "


جرح وتعدیل کے چند اجتہادی اسماء واصطلاحات میں نے ذکرکیئے آج پوری امت حدیث کے باب میں اسی کی تقلید کرتی ہے ، جرح وتعدیل کے یہ اقسام بهی خالص اجتہادی ہیں ہر مُحدث کا اس باب میں اپنا ذوق واجتہاد ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ مُحدثین کے اس ذوق واجتہاد کی تقلید جائز ہے اور فقہاء کرام کی اجتہادات کی تقلید کیوں ناجائز وحرام ہے ؟

کیا فرقہ جدید اہل حدیث نے اپنے لیئے "حدیث " کے باب میں اپنے اجتہادی اقسام واسماء متعین کیئے ہیں یا گزشتہ مُحدثین کے مُتعین کرده اقسام واسماء کو ہی تقلیدا ًاستعمال کرتے ہیں ؟؟

جواب ظاہر ہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث بهی محدثین کی تقلید میں " حدیث" کے اقسام واسماء صحیح ، حسن ، ضعیف ، وغریب وغیره استعمال کرتے ہیں ۔ یہی حال جرح وتعدیل ورجال وغیره میں ہے ، یہ بهی یاد رہے کہ اصول حدیث وعلوم حدیث وجرح وتعدیل و رجال کی تمام کتب بهی مُقلدین کی لکهی ہوئی ہیں مثلا  حافظ ذهبی ، حافظ ابن حجر ، خطیب بغدادی ، حافظ نووی ، حافظ ابن الصلاح ، حافظ العراقی ، وغیرہم سب مُقلد ہیں۔

اب اس طرز وروش کو کیا  کہا جائے ایک طرف یہ دعوی کہ تقلید ناجائز وحرام وشرک دوسری طرف حدیث کے باب میں وہی تقلید جائزولازم بن جائے ، اور پهر وه تقلید بهی مُقلدین کے کتب کی کیونکہ اس باب تمام کتب مُقلدین علماء کی ہیں ، تو یہ دوہرا جرم  ہو گیا فرقہ اہل حدیث کا کہ تقلید کرتے ہیں اور وه بهی مقلدین کی ۔ الله تعالی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔

اوریہ بهی یاد رہے کہ " جرح وتعدیل " کے مستند ائمہ میں سے یحی بن سعید ألقطان اور یحی بن مُعین رحمہما الله بهی ہیں ، اور دونوں  حنفی المسلك ہیں۔

"جرح وتعدیل  " کے ایک دوسرے امام حافظ ذهبی رحمہ الله اپنی کتاب 
د"الرواة الثقاتالمتكلم فیهم بما لا یوجب (   ۱\۳۰" میں فرماتے ہیں کہ

"ان ابن معین كان من الحنفیةِ الغُلاة فی مذهبه " 


بے شک یحی بن مُعین حنفیہ میں سے تهے اور مذهب حنفی میں غالی( پکے اورسخت .) .تهے ۔
حافظ ذهبی رحمہ الله کے الفاظ پرغور کریں " من الحَنفِیةِ الغُلاة" ایسے غالی اور پکے حنفی کا مرتبہ ومقام بهی مُلاحظہ کریں ، محدثین لکهتے ہیں کہ:


د"كل حدیث لایعرفه ابن معین فهولیس بحدیث "

یعنی إمامُ الجرح والتعدیل یحی ابن مُعین غالی حنفی کا مرتبہ ومقام اتنا بلند ہے اور حدیث کے میدان اتنا کامل وتبحر وعبور رکهتے ہیں کہ:
د" کوئی حدیث اگر یحی بن مُعین حنفی نہ پہچانے تو وه حدیث ہی نہیں ہے ۔د"
اور یہ قول بهی کسی عام مُحدث کا نہیں بلکہ امام المسلمین حضرت امام محمد بن حسن الشیبانی حنفی کے شاگرد امام المسلمین احمد بن حنبل کا ہے۔ حافظ ذهبی رحمہ الله اپنی کتاب " سیر أعلام النبلاء (۱۱|۸۸)" میں فرما تے ہیں کہ


"  كان أبو زكریا رحمہ  الله. ( ابن معین ). حنفیاً فی الفروع."

یعنی إمامُ الجرح والتعدیل ابو زكریا یحیى بن معین رحمہ  الله فروعی مسائل میں حنفی. ( مُقلد  )  تهے ۔

حافظ ذهبی رحمہ الله کے الفاظ کو غور سے پڑهیں " حَنفِیاً فی الفُرُو ع "   
یہ حنفی المسلك اور بقول حافظ ذهبی غالی اور پکا حنفی مُقلد إمامُ الجرح والتعدیل ہے ، اور بخاری ، مسلم ، ترمذی ، أبوداود ، نسائی ، ابن ماجة کا راوی ہے ، اس امام عالی شان کا تفصیلی ترجمہ وسیرت تو تمام کتب رجال وثقات میں مُحدثین نے بالتفصیل کیا ہے ، مثلا حافظ ابن حجر رحمہ الله نے اپنی کتابد" تہذیب التہذیبد" میں اور خطیب بغدادی رحمہ الله نے د"تاریخ بغدادد" میں اورحافظ ذهبی رحمہ الله نے د" تذكرة الحفاظ وسیر أعلام النبلاء د" میں وغیرهم ، چند اقوال إمامُ الجرح والتعدیل ابو زكریا یحیى بن معین حنفی رحمہ  الله کے بارے میں مزید مُلاحظہ کریں:

حافظ ذهبی رحمہ الله فرماتے ہیں ، 
الحافظ إمام المحدثین فضائله كثیرة۔

حافظ أبوبکرالخطیب بغدادی فرماتے ہیں، 
كان إماما ربانیا، عالما، حافظا، ثبتا، متقنا۔

على ابن المدینى فرماتے ہیں ،
 ما أعلم أحدا كتب ما كتب یحیى بن معین ۔


قال على ابن المدینى : انتهى العلم بالبصرة إلى یحیى بن أبى كثیر ، و قتادة و علم الكوفة إلى أبى إسحاق ، و الأعمش و انتهى علم الحجاز إلى ابن شهاب ، و عمرو بن دینار و صار علم هؤلاء الستة إلى اثنی عشر رجلا منهم بالبصرة : سعید بن أبى عروبة ، و شعبة ، و معمر ، و حماد بن سلمة ، و أبو عوانة . و من أهل الكوفة : سفیان الثوری ، و سفیان بن عیینة و من أهل الحجاز : إلى مالك بن أنس و من أهل الشام : إلى الأوزاعى . فانتهى علم هؤلاء إلى محمد بن إسحاق و هشیم ، و یحیى بن سعید ، و ابن أبى زائدة ، و وكیع ، و ابن المبارك و هو أوسع علما ، و ابن آدم  و صار علم هؤلاء إلى یحیى بن معین "


وقال عمرو الناقد: 
ما كان فى اصحابنا أعلم بالاسناد من یحیى بن معین. ما قدر أحد یقلب علیہ اسنادا قط. الخ

اسی طرح " جرح وتعدیل " کے ایک دوسرے جلیل القدر امام إمام المحدثین وشیخ الجرح والتعدیل یحیى بن سعید القطان البصری بهی حنفی تهے امام اعظم کے اقوال پر فتوی دیتے تهے 

" یأخذ بأكثر أقوال أبی حنیفة د" و یختار قوله (أی قول أبی حنیفة )   من أقوالهم "

حافظ ذهبی رحمہ الله د" تذكرة الحفاظ د"  میں فرماتے ہیں 


"ویفتی بقول أبی حنیفة.وكان یفتی برأی أبی حنیفة "

یعنی إمام المحدثین وشیخ الجرح والتعدیل یحیى بن سعید القطان البصری امام اعظم أبی حنیفة کے قول ورائے کے مطابق فتوی دیتے تهے ۔

(.تذكرة الحفاظ" للحافظ الذهبی(۱|۳۰۷.) 

حافظ  ذهبی رحمہ الله " سیر أعلام النبلاء " میں ان کا تذکره اس طرح کرتے ہیں

یحیى القطان ع یحیى بن سعید بن فروخ الإمام الكبیر أمیر المؤمنین فی الحدیث أبو سعید التمیمی مولاهم البصری الأحول القطان الحافظ الخ


مزید تفصیل کے لیئے بڑی کتب کی طرف رجوع کریں ۔

ناقدین حدیث وائمہ رجال ومحدثین کبار کے چند اقوال آپ نے ملاحظہ کیئے ان دو حنفی بزرگوں کے بارے میں ، پہلی بات تو یہ ہے اگر امام اعظم کا مذهب یعنی مذهب حنفی احادیث کے خلاف ہوتا تو کیا  "جرح وتعدیل" کے یہ دو مستند امام امام اعظم ابوحنیفہ کے قول ورائے پرکیوں فتوی دیتے تهے ؟؟

اور یہ دونوں مستند امام فروعی مسائل میں امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید کیوں کرتے تهے ؟؟ 

اور پهرحافظ ذهبی وغیره جیسے عظیم  ناقد حدیث وعالم رجال ان کو غالی حنفی بهی بتائے اور ساتھ  الإمام الكبیر أمیر المؤمنین فی الحدیث بهی بتلائے اورإمام الجرح والتعدیل بهی بتائے ، اور دوسری طرف آج کل کے فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں شامل جہلاء کا یہ وسوسہ کہ حنفی مشرک وجاہل وگمراه ہیںمعاذالله ) اب کس کی بات قابل قبول ہوگی ان ائمہ اعلام کی یا فرقہ جدید کے جہلاء کی ؟؟

کیا کوئی جاہل ومشرک بهی الإمام الكبیر أمیر المؤمنین فی الحدیث إمام الجرح والتعدیل جیسے عظیم القابات کا مستحق ہوسکتا هے ؟؟

الله تعالی اس فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں شامل جہلاء کوہدایت اور صحیح سمجھ دے ۔


إن أریدُ إلا الإصْلاحَ ما استطعتُ وَمَا توفیقی إلاب

بلاگ آرکائیو