30 مارچ، 2014

Qadianis are non_Muslims: Fatwa of Islamic Fiqh Council, South Africa

After discussing the question put to the Islamic Fiqh Council in Capetown, South Africa, concerning the ruling on the Qadianis and their off-shoot which is known as Lahoriyyah, and whether they should be counted as Muslims or not, and whether a non-Muslim is qualified to examine an issue of this nature:
In the light of research and documents presented to the members of the council concerning Mirza Ghulam Ahmad al-Qadiani, who emerged in India in the last century and to whom is attributed the Qadiani and Lahori movements, and after pondering the information presented on these two groups, and after confirming that Mirza Ghulam Ahmad claimed to be a prophet who received revelation, a claim which is documented in his own writings and speeches, some of which he claimed to have received as revelation, a claim which he propagated all his life and asked people to believe in, just as it is also well-known that he denied many other things which are proven to be essential elements of the religion of Islam
In the light of the above, the Council issued the following statement:
Firstly: the claims of Mirza Ghulam Ahmad to be a prophet or a messenger and to receive revelation are clearly a rejection of proven and essential elements of Islam, which unequivocally states that Prophethood ended with Muhammad (peace and blessings of Allaah be upon him) and that no revelation will come to anyone after him. This claim made by Mirza Ghulam Ahmad makes him and anyone who agrees with him an apostate who is beyond the pale of Islam. As for the Lahoriyyah, they are like the Qadianiyyah: the same ruling of apostasy applies to them despite the fact that they described Mirza Ghulam Ahmad as a shadow and manifestation of our Prophet Muhammad (peace and blessings of Allaah be upon him).
Secondly: it is not appropriate for a non-Muslim court or judge to give a ruling on who is a Muslim and who is an apostate, especially when this goes against the consensus of the scholars and organizations of the Muslim Ummah. Rulings of this nature are not acceptable unless they are issued by a Muslim scholar who knows all the requirements for being considered a Muslim, who knows when a person may be deemed to have overstepped the mark and become an apostate, who understands the realities of Islam and kufr, and who has comprehensive knowledge of what is stated in the Qur’aan, Sunnah and scholarly consensus. The ruling of a court of that nature is invalid. And Allaah knows best.
Majma’ al-Fiqh al-Islami, p. 13

قادیانی انبیا ء کرام علیہم السلام کے گستاخ ہیں ۔۔۔۔۔


قادیانی مرزاءی غیر مسلم ہیں ۔۔۔۔۔

29 مارچ، 2014

اگر کوئی حلالی قادیانی اس کی بدکلامی پڑھ لے تو قادیانیت چھوڑ بیٹھے

اس دنیا میں بہت بڑے بڑے بدذات پیدا ہوئے لیکن مرزا غلام قادیانی جیسا
بدذات جننے کا شرف جس کو حاصل ہوا اس کا نام گھسیٹی بی بی تھا
شائد اس کو یہ نام اس لئے ملا تھا کہ گلیوں میں پاخانہ کر کے زمین پر گھسٹ
گھسٹ کر صاف کرتی تھی اور وہیں سے کوئی شیطانی جراثیم اندر سرائت کر
گیا تھا جو مرزا کی صورت میں بعد ازاں دریافت ہوا جب اس شیطان نے نبوت
کا دعویٰ کیا تو اس کی ماں کے ساتھ پاب نے بھی اسے نبی مان لیا تھا
کبھی بھی کوئی نبی جھوٹا یا بدکلام نہیں ہوتا لیکن قادیانیوں کا یہ کاذب نبی اتناجھوٹا اور بدزبان تھا کہ اگر کوئی حلالی قادیانی اس کی بدکلامی پڑھ لے تو
قادیانیت چھوڑ بیٹھے ، اب آپ کے سامنے اس کے جھوٹ اور بدکلامی کی لمبی
فہرست میں سے چند پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے اکاؤنٹ میں کچھ اور
لعنتیں جمع ہو سکیں جسے اس کے خلیفے اپنے بھی اکاؤنٹ میں جمع کر لیں

---------------------------------------
نمبر١ کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔ (آئینہ کمالات ص ٥٤٧)
نمبر٢ جو دشمن میرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔ (نزول المسیح ص ٤، تذکرہ ٢٢٧)
نمبر ٣ میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
نمبر ٤ جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔
( انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
-----------------------------------
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین

پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت لو ۔ ایک زندہ علی ( مرزا صاحب ) تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی (حضرت علیؓ ) کو تلاش کرتے ہو۔ (ملفوظات احمدیہ ، ١٣١جلد اول )
----------------------------------
حضرت فاطمہ الزاہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی توہین

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں ۔

( ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص ٩مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )
----------------------------------
سیدنا و مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین
نمبر ١ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے حالانکہ مشہو رتھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔ (مکتوب مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ اخبار الفضل ٢٢فروری ١٩٢٤ )

نمبر ٢ مرزا قادیانی کا ذہنی ارتقاء آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھا ۔ ( بحوالہ قادیانی مذہب صفحہ ٢٦٦، اشاعت نہم مطبوعہ لاہور )

نمبر ٣ اسلام محمد عربی کے زمانہ میں پہلی رات کے چاند کی طرح تھا اور مرزا قادیانی کے زمانہ میں چودہویں رات کے چاند کی طرح ہو گیا ۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ ١٨٤)

نمبر ٤ مرزا قادیانی کی فتح مبین آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مبین سے بڑھ کر ہے ۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ ١٩٣)

نمبر ٥ اس کے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے چاند گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا اب کیا تو انکار کرے گا ۔ ( اعجاز احمدی مصنفہ غلام احمد قادیانی ص ٧١)

نمبر ٦ محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں ۔ ۔ ۔ محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیان میں (قاضی محمد ظہور الدین اکمل اخبار بدر نمبر ٤٣، جدل ٢قادیان ٢٥اکتوبر ١٩٠٦)

نمبر ٧ دنیا میں کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ۔ (حقیقت الوحی ص ٨٩ از مرزا غلام احمد قادیانی )

نمبر ٨ اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد صلعم کو اتارا تا کہ اپنے وعدہ کو پورا کرے۔ (کلمہ الفصل ص ١٠٥، از مرزا بشیر احمد )

نمبر ٩ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا ۔ ( دافع البلاء کلاں تختی ص ١١، تختی خورد ص ٢٣، انجام آتھم ص ٦٢)

نمبر ١٠ مرزائیوں نے ١٧جولائی ١٩٢٢ کے ( الفضل) میں دعویٰ کیا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے ۔

نمبر١١ مرزا غلام احمد لکھتا ہے : خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ ( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ نمبر ١٠)

نمبر ١٢ منم مسیح زماں و منم کلیم خدا منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد ۔ ۔ ۔ ترجمہ ! میں مسیح ہوں موسی کلیم اللہ ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد مجتبیٰ ہوں ۔ (تریاق القلوب ص ٥ )
-----------------------------------
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین

نمبر١ آپ کا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناء کار اور کسبی

عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

نمبر ٢ مسیح (علیہ السلام ) کا چال چلن کیا تھا ، ایک کھاؤ پیو ، نہ زاہد ، نہ عابد نہ حق کا پرستار ، متکبر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا ۔ (مکتوبات احمدیہ صفحہ نمبر ٢١ تا ٢٤ جلد ٣)

نمبر ٣ یورپ کے لوگوںکو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے ۔ (کشتی نوح حاشیہ ص ٧٥ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

نمبر ٤ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ (دافع البلاء ص ٢٠)

نمبر ٥ عیسیٰ کو گالی دینے ، بد زبانی کرنے اور جھوٹ بولنے کی عادت تھی اور چور بھی تھے ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ص ٥،٦)

نمبر ٦ یسوع اسلیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکتا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چلن ، نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کادعویٰ شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔ (ست بچن ، حاشیہ ، صفحہ ١٧٢، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )
------------------------------------
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین

نمبر١ دافع البلاء میں ص ١٣پر مرزا غلام احمد نے لکھا ہے میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بر تر ہوں۔

نمبر٢ مجھ میں اور تمہارے حسین میں بڑا فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ (اعجاز احمدی صفحہ ٦٩)

نمبر ٣ اور میں خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ۔ (اعجاز احمدی صفحہ ٨١)

نمبر ٤ کربلا ئیست سیر ہر آنم صد حسین اس در گر یبانم ۔ ۔ ۔ میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے ۔ میرے گریبان میں سو حسین پڑے ہیں ۔ (نزول المسیح ص ٩٩مصنفہ مرزا غلام احمد )

نمبر ٥ اے قوم شیعہ ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں سے ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے ۔ (دافع البلاء ص ١٣، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )

نمبر ٦ تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین ہے۔۔۔۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔ ( اعجاز احمد ی ص ٨٢، مصنفہ مرزا غلام احمد )

اس عبارت میں مرزا صاحب نے حضرت حسین کے ذکر کو "گوہ" کے ڈھیر سے تشبیہ دی ہے۔
-------------------------------------
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی توہین

نمبر١ حضرت مسیح موعود نے اسکے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بار بار یہاں نہ آئے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے ۔ پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا ۔ آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں۔ (مرزا بشیر الدین محمود احمد مندرجہ حقیقت الرؤیا ص ٤٦)

نمبر ٢ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیان کا ۔ (خطبہ الہامیہ ص ٢٠حاشیہ)
---------------------------------------
مسلمانوں کی توہین

نمبر١ کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔ (آئینہ کمالات ص ٥٤٧)

نمبر٢ جو دشمن میرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔ (نزول المسیح ص ٤، تذکرہ ٢٢٧)

نمبر ٣ میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

نمبر ٤ جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔

( انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
-------------------------------------
قرآن مجید کی توہین

نمبر١ قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریق کے استعمال کر رہا ہے ۔ (ازالہ اوہام ص ٢٨،٢٩)

نمبر ٢ میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہو گئی ہیں ۔ (ازالہ اوہام ص ٣٧١)

نمبر ٣ قرآن مجید زمین پرسے اٹھ گیا تھا میں قرآن کو آسمان پر سے لایا ہوں ۔ (ایضاً حاشیہ ض ٣٨٠)

خوشخبری Great News


تکبر ، قرض اور خیانت سے بچیں !!


دن میں رزق تلاش کرو اور رات کو اس کی تلاش کرو جو رزق دیتا ہے.


کیوں دادی کو مارنے پر تلے ہوئے ہو

کلاس روم میں پڑھائی کے دوران پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ایک لڑکے نے اپنے موبائل پر اپنا فیس بک اکاونٹ کھولا ... اور جیسے ہی اس کا اسٹیٹس آن لائن شو ہوا تو
پروفیسر صاحب نے جو لیب ٹاپ پر آن لائن تھے کمنٹ کیا کہ نالائق انسان کلاس سے نکل جاؤ،
آفس میں بیٹھے پرنسپل نے پروفیسر کے کمنٹ کو لائک کرکے اسکی تائید کردی،
دوست نے یہ ماجرہ دیکھ کر کمنٹ کیا اوئے ٹینشن نہ لے کیفے میں آجا سموسے کھاتے ہیں،
ماں نے گھر سے کمنٹ کیا ، نکمے انسان کلاس نہیں لینی تو سبزی لے کر گھر آ جا،
باپ نے دفتر سے کمنٹ کیا ۔ دیکھ لی اپنے لاڈلے کی حرکتیں ، تمہارے پیار نے ہی اسے بگاڑا ہے،
گرل فرینڈ نے کمنٹ کیا ۔ دھوکے باز تم نے تو کہا تھا کہ تم کالج نہیں گئے ہسپتال میں ہو دادی کی حالت بہت خراب ہے آخری سٹیج پر ہے اس لیے ملنے نہیں آسکتا،
اسی وقت دادی نے بھی کمنٹ کیا۔۔۔

او بیڑا غرق ہو تیرا بے غیرتا ۔ کیوں دادی کو مارنے پر تلے ہوئے ہو.

گالیاں بکنے والے کی تمام نیکیاں ضائع کر دی جائینگی

گالیاں بکنے والے کی تمام نیکیاں ضائع کر دی جائینگی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! قیامت کے روز گالیاں بکنے والے فحش گُو کو جہنم رسید کر دیاجائے گا۔ مندرجہ ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عُمدہ مثال اور بڑی تفصیل سے بُرے انجام کو بیان فرمایا۔ آئیے پڑھ کر اپنی زبان کی حفاظت کریں اور گالی گلوچ سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے اپنی آخرت بہتر کریں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کرام سے پوچھا

اتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لادرھم لھ ولا متاع ، فقال ان المفلس من امتی ، من یاتی یوم القیامۃ بصلاتہ و صیامہ وزکاتہ ، ویاتی قد شتم ھذا ، واکل مال ھذا، وسفک دم ھذا ، و ضرب ھذا، فیعطی ھذا حسناتہ و ھذا من حسناتہ فان فنیت حسناتہ ، قبل ان یقضی ماعلیھ ، اخذ من خطا یاھم فطرحت علیھ ، ثم طرح فی النار۔

ترجمہ: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہمارے خیال میں مُفلس وہ ہے جس کے پاس پیسے روپے اور سازو سامان نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کو نماز، روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا لیکن اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کامال کھایا ہو گا، کسی کا ناحق قتل کیا ہو گا، اور کسی کو مارا ہو گا ۔ پس ان لوگوں کو اس کی نیکیاں دے دی جائینگی ، اگر اس کی نیکیاں لوگوں کا حساب چکانے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گی تو پھر ان لوگوں کے گناہ اس پر ڈال کر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
صحیح مسلم شریف، کتاب البروالصلۃ ، باب تحریم الظلم ، حدیث نمبر 6579

جنہم میں جانے والے اس بدنصیب کے تمام گناہوں میں سے ایک اہم گناہ اور سنگین جرم گالی بھی ہو گی، جو وہ دنیا میں دوسروں کو نکالا کرتا تھا۔ آج ہمیں ناراضگی اور لڑائی جھگڑے کے موقع پر زبان کو سوچ سمجھ کر حرکت دینی چاہیے اگر کوئی غریب آدمی دنیا میں ہم سے گالی گلوچ کا بدلہ نہیں لے سکتا تو قیامت کے روز اللہ تعالی ہماری نیکیاں اُس کے سپرد کرتے ہوئے ہمیں جہنم رسید کر دے گا۔ اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس بدتر انجام سے محفوظ فرما دے اور زبان کو تمام آوارگیوں سے پاک فرمائے آمین۔

28 مارچ، 2014

بیما ریوں کا عالمی چیمپین ۔۔۔۔۔۔ مرزا قادیانی


قادیا نی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں ؟ ؟ ؟ ؟


ہو شیار رہیں ۔۔۔۔۔۔


قادیانی علامہ اقبال کی نظر میں


آپ ایک بار پھر سوچ لیں..

ایک شخص شادی کا خواہشمند تھا اور اس لیے وہ ایک شادی دفتر گیا
دفتر بند تھا ، اور باہر نوٹس بورڈ پر لکھا تھا
"دفتر دوپہر ایک بجے سے شام 5 بجے تک بند رہے گا
تب تک آپ ایک بار پھر سوچ لیں....."

سنگساری کی شرعی سزا۔ جاوید چودھری کو جواب

سنگساری کی شرعی حیثیت

محترم جناب جاوید چوہدری صاحب!!
چند دنوں سے آپ کے کالمز میں اسلامی و شرعی احکامات سے متعلق باتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں ۔ بالخصوص اسلامی حدود  اور اسلامی ریاست میں نافذ کی جانی والی سزاؤں کے بارے میں ایک حکم سنگساری سے متعلق آپ کا کالم پڑھنے کو ملا ۔ چونکہ راقم ملک سے باہر اپنے دعوتی سفر پر تھا اس لیے بروقت جواب دینے میں تاخیر ہو گئی ۔  آپ کی صدق نیت اور اسلام سے متعلقہ معلومات سے آگاہی کا جذبہ یقیناً آپ کی اسلام سے محبت کی دلیل ہے ۔یہ علماء کرام کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ دینی مسائل کا جواب خندہ پیشانی سے دیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے علماء  کرام سے اس بارے   میں سوال کیا اور امید ہے کہ آئندہ بھی مذہبی معاملات میں علماء کی راہنمائی لیتے رہیں گے ۔جہاں تک آپ کے کالم میں ذکر کردہ سوالات کا تعلق ہے تو ان کے جوابات حاضر ہیں حسب وعدہ انہیں  اپنے قارئین کے لیے شائع فرمائیں۔
نوٹ :     ہمارے  ذکر کردہ دلائل آپ کے  تسلیم شدہ  دلائل کے علاوہ ہیں ۔

سوال :

آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نے کسی جگہ زنا کاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟ اگر ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟

جواب :

دلیل نمبر1:             ” وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً “جو بدکاری  کرے  تمہاری عورتوں میں سے  تو گواہ لاؤ ان پر  اپنوں میں  سے چار مرد،  پھر اگر وہ گواہی دیں  تو بند رکھو ان  عورتوں کو گھر میں ، یہاں تک کہ  ان کو موت اٹھا لے، یا اللہ ان  کےلیے  کوئی راہ مقرر کر دے ۔         )سورۃ النساء:15(
اس آیت مبارکہ میں  ان  عورتوں  کے بارے میں  جو زنا کی مرتکب ہوں  حکم دیا گیا ہے  کہ ان کے جرم پر  چار مسلمان مردوں کی شہادت  قائم کی جائے اور شہادت سے  ان کا جرم  ثابت ہوجائے  تو ان کوگھروں میں بند رکھا جائے  یہاں تک کہ ان کے بار میں  اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نازل ہو جائے ۔ اس کی تفسیر  نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے  وحی الہٰی کے ذریعے یہ  فرمائی ہے  کہ زنا کا مرتکب شادی شدہ  (محصن)ہو تو اس کو رجم (سنگسار) کیا جائے  اور غیر شادی شدہ  (غیر محصن) ہو تو اس کو  سو 100 کوڑے  لگائے جائیں۔
کان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلًا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد مائۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد مائۃ ثم نفی سنۃ.                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     )                          صحیح مسلم رقم 3200)
آپ علیہ السلام  پر جب وحی نازل ہوتی تھی  تو اس کی وجہ سے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر بے چینی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی  اور چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن  آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی  تو آپ علیہ السلام  پر یہی کیفیت طاری  ہو گئی  اور جب وحی   کی یہ  کیفیت  ختم  ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  مجھ سے لے لو  ، مجھ سے لےلو۔ اللہ تعالیٰ نے  ان عورتوں  کے  لیے  راہ مقرر کر دی ۔ شادی شدہ مرد وعورت  اس کے مرتکب ہوں  تو ان کی سزا سو100 کوڑے لگانا  اور پھر” سنگسار“ کرنا ہے۔ کنوارے مرد وعورت اس   کے مرتکب ہوں  تو 100 کوڑے  پھر ایک سال  کی جلا وطنی ۔
فائدہ :       غیر شادی شدہ کے لیے ایک سال کی جلا وطنی انتظامی فیصلہ ہے ۔
دلیل نمبر 2:             اسی طرح سیدنا عبداللہبن عباس رضی اللہ عنہماسے بھی  اس  آیت کی یہی تشریح وتفسیر  صحیح بخاری جلد 2ص657 پر موجود ہے۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہما لھن سبیلا یعنی الرجم للثیب والجلد للبکر.یہ بالکل ایسے ہے  جیسے نماز او رزکوٰۃ کا حکم  قرآن مجید میں   ہے  اور  نماز  کیسے پڑھنی  ہے؟  اور زکوٰۃ   کیسے ادا کرنی    ہے؟ اس کا طریقہ  آپ علیہ السلام  نے  بتایا ہے  اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے   کہ اس نمازاور زکوٰۃ کا  قرآن  کریم  نے حکم  نہیں دیاوہ خارج از ملت ہے۔ اسی طرح  قرآن کریم میں  زانی  محصن[ شادی شدہ ]  کی سزا رجم[ سنگسار ]  ہے ۔ یہ بھی حق تعالیٰ شانہ  نے  ”أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً “ کے مجمل  الفاظ میں   ذکر فرمائی ہے اور پھر اس کی تشریح  خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے  آپ علیہ السلام نے  بذریعہ وحی  فرمائی ہے۔
دلیل نمبر3:             سورۃ  المائدہ کی آیت نمبر 41 تا 50 یہود کے ” قصہ  رجم“ کے متعلق  نازل  ہوئیں۔جن کی وضاحت صحیح  مسلم  جلد 2ص70 پر موجود ہے  ۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اول من احییٰ امرک اذا ماتوہ فامر بہ فرجم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا جسے لوگوں نے بالکل چھوڑ دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر [ اس شخص کو ] رجم [ سنگسار ] کر دیا گیا ۔
دلیل نمبر 4:             امام بغوی رحمہ اللہ  نے  اس  قصہ  کا  خلاصہ  یہ نقل کیا ہے  کہ  خیبر کے یہودیوں میں  ایک شادی شدہ  جوڑے  نے  زنا کا ارِتکاب کیا تھا۔ جس کے لیے ان کی  شریعت[  تورات]  میں  رجم [ سنگساری ] کی  سزا مقرر تھی  مگر یہودیوں نے  خواہش نفس کی پیروی میں  اس  پر عمل درآمد معطل کر رکھا تھا۔ جب ان کے یہاں  یہ واقعہ  پیش آیا  تو اس خیال سے   کہ ” شریعت محمدی“ ان کی شریعت  تورات  سے نرم  ہے ۔ انہوں  نے  یہ مقدمہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا ۔ چنانچہ ایک وفد  ان مجرموں کو لے  کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت  میں  حاضر ہوا ۔ جسے یہود نے  بطور خاص یہ ہدایت کی تھی  اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے مطلب کے مطابق  فیصلہ کریں  تو قبول کر لینا  ورنہ نہیں۔  وفد نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ اگر شادی شدہ مرد  اور عورت زنا کا ارتکاب کریں  تو ان کی کیا سزا ہے ؟[جواب دینے سے پہلے ] آپ علیہ السلام نے  فرمایا  کیا تم میرا فیصلہ مانو گے؟ انہوں نے اقرار  کیا۔ اسی وقت  جبرائیل علیہ السلام  اللہ تعالیٰ کا یہ حکم  لے کر نازل ہوئے  کہ ان  کی سزا رجم [سنگساری ] ہے ۔ ان  لوگوں نے  جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلاگئے اور تسلیم کرنے سے  انکار کر دیا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ  آپ  ان سے  یہ  فرمائیں   کہ وہ آپ کے    فیصلے کو ماننے  یانہ  ماننے  کے بارے میں ”ابن صوریہ“کو حَکم[ ثالث]    بنا لیں   اور  ابن صوریہ  کے  حالات اور صفات  بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے ۔ آپ علیہ السلام نے  یہودی وفد سے  فرمایا : کیا تم اس نوجوان کو جانتے ہو؟ جو سفید رنگ کا ہے  مگر ایک آنکھ سے معذور ہے؟ انہو ں نے اقرار کیا کہ ہم  پہنچاتے  ہیں۔ آپ علیہ السلام نے  پوچھا  کہ تم  اسے کیسا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا  علمائے  یہود میں  روئے زمین  پر  اس سے بڑا عالم نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اسے بلاؤ ، چنانچہ اسے بلایا گیا ۔ تو آپ علیہ السلام نے اسے قسم  دے کر پوچھا کہ  تورات میں  اس جرم کی سزا کیا ہے ؟ وہ بولا قسم  ہے  اس ذات کی  جس کی قسم  آپ نے  مجھ کو دی ہے  اگر آپ مجھے قسم نہ دیتے  تو مجھے  یہ ِخطرہ  نہ ہوتا کہ اگر غلط بیانی کروں  گا  تو تورات مجھے  جلا ڈالی گی  میں کبھی ظاہر نہ کرتا ۔ واقعہ  یہ ہے کہ اسلام  کی طرح  تورات میں بھی  زانی کی سزا   یہی ہے  کہ ان دونوں  کو سنگسار  کر دیا جائے۔ مگر جب ہمارے  اشراف  میں  زنا کی کثرت ہوئی  تو کچھ عرصہ تک تو یہ رہا  کہ اشراف کو چھوڑ دیتے  اور پسماندہ  طبقے پر حد جاری کرتے  لیکن ہم نے  یہ طے کیا  کہ  رجم کی بجائے  ایک ایسی سزا مقرر کر دی جائے  جو  شریف و وضیع سب پر جاری ہوسکے وہ تھی  منہ کالاکر دینا  جوتے لگانا  اور گدھے  پر الٹا سوار کرنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  سن کر فرمایا ”اللٰھم انی  اول  من احیا امرک اذااماتوہ “ یااللہ  میں  پہلا شخص ہوں  جس  نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ  انہوں نے  اس کو مٹا ڈالا تھا۔ اس پر آ پ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے  حکم پر  ان دونوں کو رجم  [ سنگسار ]کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ
$11                   اس حکم کو ”ما انزل اللہ “[ اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ] کہہ کر  آپ صلی اللہ علیہ  وسلم کو  اس پر عمل کرنے کا  تاکیدی حکم فرمایا ۔ اس معاملے پر  کسی قسم کی رعایت  روارکھنے سے”لا تتبع اھواءھم“[ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ] کہہ کر شدت سے منع فرمایا ۔
$12                   جو لوگ  اس ”ماانزل اللہ“سے پہلو تہی کرتے ہیں ان کو دوڑ کر  کفر میں گرنے والے  اور زبان  سے  اسلام کا دعویٰ  کرنے کے باوجود  دل کا  کافر فرمایا۔”الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنْ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ “ ۔
$13                   جو اس حکم خداوندی کو تسلیم  کر کے  اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر  آمادہ نہ ہوں  ان کو صاف صاف الفاظ میں  کافر ، ظالم اور فاسق فرمایا ہے۔سورۃ مائدہ: آیت نمبر44تا 46
جب رجم کے حکم کی  قرآن  کریم  اتنی  شدومد  کے ساتھ  تاکید کرتا ہے  اور اس  سے پہلو تہی کرنے اور تسلیم نہ کرنے  والوں کو  اسلام  کے زبانی دعویدار  مگر دل کے کافر ،ظالم اور فاسق کہتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ  قرآن  کریم  کی کون سی آیت  یانبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی کون سی سنت  ہے  جس نے  اس شدید  اور مؤکد حکم  کو منسوخ کر دیا ہو ؟
دلیل نمبر5:             صحیح بخاری اور صحیح مسلم  کی روایت  ]اختلاف الفاظ کے ساتھ ] موجودہے : حضرت ابو ہریرہ  اور  حضرت  زید بن خالد الجہنی  رضی اللہ  عنہما  فرماتے  ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دو شخص آئے ایک نے کہا  کہ ہمارے درمیان  کتاب اللہ کے  مطابق فیصلہ کیجیے دوسرے نے  کہا ہاں! یارسول اللہ واقعی ہمارے درمیان  کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے  اور  مجھے اجازت دیجئے  کہ میں  اپنا واقعہ  بیان کروں۔ آپ  علیہ السلام نے فرمایا  ہاں بیان کرو  اس نے کہا  میرا یک بیٹا اس شخص  کے ہاں  نوکر تھا اس نے  اس کی بیوی سے زنا  کیا ۔ مجھے  لوگوں نے بتایا  کہ میرے بیٹے پر  رجم [ سنگساری ]کی سزا جاری ہوگی  ، میں نے  اس  کے فدیہ میں  اس شخص کو  سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں  نے اہل علم سے  دریافت کیا انہوں نے مجھے بتایا  کہ میرے بیٹے پر  سو کوڑوں اور ایک سال جلاوطنی  کی سزا ہے  اور رجم[ سنگساری ] کی سزا اس کی بیوی پر ہے: فقال النبی صلى الله عليه وسلم والذى نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله المائۃ الشاۃ والخادم رد علیک وعلی ابنک جلد مائة وتغريب عام واغد یا انیس فاغد ا لى امرأة هذا فان اعترفت فارجمها۔

)صحیح بخاری ج2 ص 1008(

یہ سن  کر  آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا   :سنو! قسم  ہے اس ذات کی  جس کے قبضے میں میری جان ہے  میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے  مطابق ہی فیصلہ کروں گا  اور وہ یہ ہے کہ  تیری بکریاں اور لونڈی  تجھے  واپس کر دی جائیں  گی اور تیرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا جاری ہوگی ا ور ہاں اے انیس!  تم اس شخص کی بیوی  کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا  اقرار کرے  تو اس کو ”رجم“ کرو۔
اس حدیث مبارک میں آپ علیہ السلام نے  رجم[سنگساری] کی سزاکو  قسم اٹھا کر کتاب اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ سوال  یہ ہے کہ  اگر قرآن مجید میں  سزائے رجم[ سنگساری ] مذکور  نہیں ہے  تو آپ علیہ السلام  اس کو  کتاب اللہ کی طرف منسوب کیوں کرتے؟

سوال نمبر 2:

آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ”نبی اکرمؐ سے منسوب سزا کے [اوپر بیان کردہ دونوں] واقعات کب وقوع پذیر ہوئے‘یہ واقعات سورۃ النور کے نزول سے پہلے کے واقعات ہیں یا سورۃ النور کی ان آیات کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوئے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی‘اگر یہ دونوں واقعات آیات کے نزول سے پہلے کے ہیں تو کیا پھر رجم درست ہے؟“

جواب :

دلیل نمبر 1:             رجم [ سنگساری ]کے موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جبکہ وہ اسلام  ہی سات ہجری  میں لائے ہیں۔اسلم[ ابو ھریرۃ ] عام خیبر                                                                                       
  )عمدۃ القاری ج1 ص 331(
دلیل نمبر 2:             علامہ  ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ  نے  مزید کہا ہے  ”وابن عباس  انما جاء مع امہ الی المدینۃ سنۃتسع“ اس موقع پر  ابن عباس  رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے  اور  انہوں نے  اپنی والدہ کے  ساتھ  سن 9ہجری  میں  مدینہ  کی طرف ہجرت کی ۔
دلیل نمبر 3:             رجم[سنگساری ]  کا ایک واقعہ حضرت وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے  اور  وہ  سن9ہجری میں  مسلمان  ہوئے۔
دلیل نمبر 4:             امت کے دو جلیل القدر محدث؛ علامہ ابن  حجر عسقلانی اور علامہ عینی  حنفی رحمہما اللہ  دونوں  فرماتے ہیں کہ اس بات پر دلیل موجود ہے کہ  رجم کا حکم سورۃ النور کے نزول کے بعد ہوا ”وقد قام الدلیل علی ان الرجم  وقع بعد سورۃ النور“کیوں کہ  سورۃ النور  کا نزول  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  پر تہمت کے  قصہ میں  ہوا تھا  اور یہ واقعہ  سن4،5یا 6 ہجری میں  ہوا تھا ۔

)فتح الباری  ج12ص120، عمدۃ القاری تحت باب رجم المحصن(

  اس لیے واقعہ  سن 9یا 10ھ کا ہی ہو سکتا ہے  یہ اس بات کی قطعی  دلیل  ہے  کہ سورۃ النور  کے  نزول کے بعد بھی  یہ حکم برقرار ہے۔
سوال  نمبر 3:        آپ کا تیسرا  سوال یہ تھا کہ”  کیا حیات طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟“

جواب:  اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں آپ کے ذکر کردہ دو واقعات کے علاوہ بھی کئی واقعات ایسے ہیں جو خود نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں رونما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سزا رجم [ سنگساری ] نافذ فرمائی ۔ چنانچہ

دلیل نمبر 1:             حضرت ابو ہریرہ  اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما کی حدیث  تفصیلاً پہلے گزر چکی  کہ آپ علیہ السلا م نے زنا کے مقدمے کا فیصلہ سناتے  ہوئے فرمایا تھا اس ذات  کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں تمہارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق کروں گا ۔ چنانچہ خاتون نے جب اپنے گناہ کا اقرار کیا تو ” فامر بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرجمت“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے   اس کے  رجم [سنگساری ] کا حکم  دے دیا،لہٰذا اس کو سنگسار کر دیا گیا ۔
نوٹ :       یہ روایت متعدد کتب حدیث میں موجود ہے مثلاً:
1:            بخاری جلد2ص1008
2:            مسلم جلد2ص69
3:            ابوداؤد ص606
4:            نسائی ج2ص308
5:            ترمذی ص172
6:            ابن ماجہ ص186
7:            مؤطا امام مالک ص349۔
دلیل نمبر 2:             حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے گھر سے نکلی تو راستے میں ایک شخص نے اُسے پکڑا اور اپنے نفس کی پیاس بجھائی۔  اس پر وہ عورت  چیخی چلائی تو وہ مجرم بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی دوران  ایک آدمی وہاں  سےگزرا تو  وہ عورت (بد حواسی کی وجہ سے)یہ کہہ رہی تھی کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ برا کام کیا ہے۔اسی اثناء میں  مہاجرین کی ایک جماعت بھی اُس عورت کی طرف آ نکلی۔  تو وہ عورت یہی کہہ رہی تھی:”اس شخص نے میرے ساتھ یہ برا کام کیا ہے۔“ چنانچہ یہ حضرات  بھاگے اور اُس شخص کو پکڑ لیا جس کے بارے میں عورت کا خیال تھا کہ اُس نے اُس کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔ وہ  اس شخص کو پکڑ لائے اور عورت سے  پوچھا: یہی وہ شخص ہے؟ عورت بولی : ہاں!یہ وہی ہے ۔ وہ اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے رجم[سنگسار] کر دیا جائے۔ اس سزا کا سننا تھا کہ اصل مجرم کھڑا ہو گیا اور حضور کی خدمت میں عرض کی:یا رسول اللہ!اصل مجرم میں ہوں ، میں نے ہی اِس کے ساتھ زیادتی کی۔
 صورت حال واضح ہوجانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےاس عورت سے فرمایا: جا (تو بے قصور تھی)، اللہ نے تجھے معاف کر دیا اور اُس  بے قصورشخص سے بھی کلمات خیر ارشاد فرمائے۔ پھراصل مجرم کے بارے میں جس نے اُس عورت سے بدکاری کی تھی ، ارشاد فرمایا : ”أرجموه“  اسے رجم کر دو ۔                                                                                                                                                                    )ترمذی ج1ص269 (
دلیل نمبر 3:             حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ فرماتے   ہیں  : میں بازار  میں بیٹھا  کام  کر رہا  تھا  کہ ایک عورت بچے کو اٹھائے  ہوئی گزری، لوگ اس کے ساتھ  ہو لیے  میں  بھی ان میں شریک ہوگیا  ۔ عورت   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی ، آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ اس بچے کا باپ کون  ہے؟ عورت خاموش رہی  ایک  نوجوان  نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں  اس کا باپ ہوں۔ آپ علیہ السلام نے  پھر اس عورت سے  سوال کیا ، نوجوان نے پھر کہا: میں  اس کا باپ ہوں۔آپ علیہ السلام  نے  حاضرین سے  تحقیق فرمائی  کہ اس  نوجوان کو جنون تو نہیں؟ عرض  کیا گیا  کہ نہیں یہ تندرست ہے۔ آپ علیہ  السلام نے اس نوجوان سے پوچھا: کیا تم شادی  شد ہ ہو؟ تو اس نے اثبات میں جواب  دیا ”فامر بہ  فرجم“  اس کے بارے  میں  حکم فرمایا   پس اس کورجم  کر دیاگیا۔

)سنن ابی داؤدج2ص609،مسند احمد ج3ص479(

دلیل نمبر 4:             ام المؤمنین  سیدہ عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا  کی روایت کتب حدیث میں مذکور ہے اس میں ہے کہ  رجلاً زنیٰ بعد احصان فانہ  یرجم. شادی شدہ شخص اگر زنا کرےتواس کو رجم کیا جائےگا۔

)صحیح مسلم ج2ص59،ابو داؤدج2ص598، نسائی ج2ص165تا168(

                یہ  وہ روایات  ہیں  جن میں صراحتاً شادی شدہ زانی  کی سزا  رجم [سنگساری ] نقل  کی گئی ہے ۔
ان تمام  احادیث کو  مجموعی نظر دیکھنے کے بعد  اس امر میں  کوئی  شک وشبہ باقی نہیں رہ جاتا  کہ آپ علیہ السلام نے  شادی شدہ  زانی کی حد رجم [سنگساری ] ارشاد فرمائی ہے  اور  کتب حدیث اور تاریخ میں دورِنبوی کا  کوئی ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ملتا  جس  میں  آپ علیہ السلام  نے  ایسے مجرم کو  سنگسار کرنے کا حکم  نہ  فرمایا ہو۔
سوال نمبر 4:        آپ کا سوال یہ ہے کہ” نبی اکرمؐ کے بعد چار خلفاء راشد کا دور آیا‘ کیا خلفاء راشدین نے کسی کو پتھر مروائے؟ حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی ریاست 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی‘ دنیا کی درجنوں ثقافتیں‘ زبانیں اور نسلیں اسلامی ریاست کے زیر سایہ آ گئیں‘حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمرؓ ‘حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ نے کیا سزاتجویز کی؟ کیا ان کے ادوار میں مجرموں کو پتھر مارے گئے‘ اگر ہاں تو کیا پتھر مارنے والوں کو خلیفہ کی رضا مندی حاصل تھی؟“

جواب :              جی بالکل !خلفاء راشدین کے ادوار میں بھی شریعت کے اس حکم پر عمل کیا جاتا رہا ۔ چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔

دلیل نمبر 1:                                       عن انس  رضی اللہ عنہ  قال رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وابو بکر وعمر۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا اسی طرح حضرت ابو بکر  صدیق  اور حضرت عمر  رضی اللہ  عنہما[کے دور میں بھی جب ایسے واقعات  پیش آئے تو دونوں خلفاء]  نے بھی رجم [ سنگساری ] کا حکم نافذ فرمایا ۔                                                          )مجمع الزوائد ج2ص264 المطالب  العالیہ  ج2ص116(
دلیل نمبر 2:             مومنوں کے دوسرے خلیفہ حضرت  عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا  مشہور  خطبہ  تقریباً حدیث کی تمام   معتبر کتب بالخصوص صحیح بخاری ج  2 ص 1008میں موجود ہے:قال عمر لقد خشیت ان یطول بالناس  زمان حتی  یقول قائل لا نجد الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلھا اللہ الا وان الرجم حق علی من زنیٰ وقد احصن اذا قامت البینۃ او کان الحبل اوالاعتراف ………وقد رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجمناہ بعدہ ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہے  کہ لوگوں  پر زمانہ گزرے گا  تو کوئی کہنے  والا کہے گا  کہ ہم کتاب اللہ  میں رجم  [سنگساری کا حکم ]نہیں پاتے  پس وہ  ایک ایسے فریضے کو جو اللہ تعالی ٰنے نازل فرمایا  چھوڑ کر گمراہ ہوں گے  اور بے شک  اس زانی پر  جو شادی  شدہ  ہو رجم  [سنگساری کی سزا] برحق ہے  ، جبکہ گواہی قائم ہوجائے  یا حمل ظاہر ہوجائے  یا وہ از خود اقرار کرلے  ……بے شک آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے بھی رجم کی سزا نافذ فرمائی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سزا جوں کی توں نافذ کی۔
نوٹ :     اس  کے علاوہ بھی امام بخاری نے اس پر باب باندھ کر کئی اور بھی احادیث نقل فرمائی ہیں ۔
امید  ہے  کہ  آپ کو اپنے سوال (کہ ان دونوں واقعات میں اعتراف گناہ کے بعد سزا دی گئی‘ تفتیش یا گواہی کی بنیاد پر نہیں‘ کیا نبی اکرم ؐ کے دور میں شکایت‘ گواہی اور تفتیش کی بنیاد پر بھی کسی کو سنگسار کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیا ہم تفتیش کے بعد کسی کو سنگسار کر سکتے ہیں؟) کا جواب  مل چکا  ہوگا  کیونکہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے الفاظ”اذا قامت البینۃ“ جب گواہ؛  گواہی  دے دیں “ اس کی واضح دلیل ہے۔
دلیل نمبر 3:             حضرت عثمان  غنی  رضی اللہ عنہ  کے دور میں رجم]سنگساری ] کی سزا کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ قد رجمت کہ اس عورت کو رجم[سنگسار]  کر دیا گیا :                                                                                                                                                موطا امام مالک ص 686 (
دلیل نمبر 4:             حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں   رجم[ سنگساری ] کی سزا کا واقعہ موجود ہے ۔ عن  علی  حین  رجم  المراۃ یوم  الجمعۃ قال رجمتھا بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔                                                                                                                                                                                                                              )صحیح بخاری جلد2ص1006 (
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے   جب جمعہ  کے دن ایک عورت کو رجم  کیا تو فرمایا میں نے  اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت  کے مطابق رجم [سنگسار ] کیا ہے ۔
حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے علاوہ بھی  بہت سار ی روایات  صحابہ کرام  رضوان  اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین  سے منقول  ہیں۔ سردست  ان حضرات کے  نام  لکھنے پر  ہی  اکتفاء کیا جاتا ہے ۔
$1·        حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت نضر بن  دہر رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت ھزال رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ
$1·        حضرت ابو امامہ  سہل بن حنیف رضی اللہ  تعالیٰ عنہ

اجماع امت:

                ظاہر  بات  ہے جس سزا پر قرآن   کا حکم واضح طور پر موجود ہو ،  آپ  علیہ السلام  کی  احادیث متواترہ  ہوں  ، خلفاء راشدین  اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کےنافذ کردہ  فیصلے موجود ہوں اس میں  کسی  مسلمان کو  اختلاف کی گنجائش کب ہو سکتی ہے ؟ چنانچہ صحابہ کرام سے  لے کر آج تک  امت اس بات پرمتفق ہےاور اس پر اجماع ہے کہ شادی شدہ زانی کی سزا  رجم (سنگساری) ہے ، اس  سلسلے میں  چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔
دلیل نمبر1:             فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے مصنف امام مرغینانی [صاحب ہدایہ]  لکھتے  ہیں”واذا وجب  الحد مکان الزانی  محصناً رجمہ بالحجارۃ حتی یموت۔۔۔وعلی ھذا اجماع الصحابۃ“شادی شدہ  زانی  کی حد  اس کو رجم کرنا ہے  پتھروں کے ساتھ  یہاں تک  کہ وہ  مرجائے ….اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع  ہے۔                                                                                                                                         )ہدایہ  مع فتح القدیر  ج5ص210(
دلیل نمبر2:             شیخ ابن  ہمام رحمہ اللہ  لکھتے  ہیں ” )رجمہ بالحجارۃ حتی یموت (علیہ اجماع الصحابۃ ومن تقدم  من علما ء المسلمین“اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے  اور وہ   علماء مسلمین  جو پہلے  گزر چکے ہیں۔                                               )ہدایہ مع فتح القدیر  ج5ص210(
دلیل نمبر3:             امام نووی رحمہ اللہ   شرح مسلم  میں  لکھتے  ہیں ”واجمع العلماء علی  وجوب  جلد الزانی  البکر مائۃ ورجم المحصن وھو  الثیب ولم یخالف فی ھذا احد من اھل  القبلۃ “اس پر علماء کا اجماع ہے   کہ غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے  اور شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے  اور اس کا اہل قبلہ میں سے کوئی مخالف نہیں ۔                                                                                                         )شرح مسلم ج2ص65(
دلیل نمبر4:             علامہ  ابن  حجر  عسقلانی  رحمہ اللہ  فتح الباری شرح صحیح البخاری میں  لکھتے  ہیں: قال ابن بطال اجمع  الصحابۃ  وائمۃ الامصار علی  ان  المحصن  اذا زنی عامداً عالماً مختاراً فعلیہ الرجم۔ ابن بطالرحمہ اللہ فرماتے  ہیں صحابہ کرام ا ور ائمہ  کرام کا اس بات پر   اجماع ہے  کہ محصن[  شادی شدہ]  زانی باختیار اور جان بوجھ کر زنا کرے تو  اس کی سزا رجم [ سنگساری ]ہے ۔                                   )فتح الباری ج12ص143(
سوال نمبر 5:        آپ کا سوال ہے کہ ” زنا کے گناہ کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟ “

جواب:  کتب فقہ میں آپ کے اس سوال کا جواب بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ حق صرف قاضی وقت کو ہے ۔

سوال نمبر 6:      آپ کا سوال ہے کہ ”کیا اسلام میں زنا کے علاوہ کوئی ایسا دوسرا گناہ‘ کوئی ایسا دوسرا جرم موجود ہے جس کی حدود کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہو؟“

جواب:  اس کا جواب ہے کہ شریعت میں زناجیسے قبیح جرم  کے علاوہ کوئی ایساگناہ نہیں جہاں سزا دیتے وقت  چار گواہوں کی گواہی کی ضرورت  پیش آئے ۔

سوال نمبر 7:        گواہوں کے متعلق آپ کا سوال یہ تھا کہ” اور یہ چار گواہ بھی وہ لوگ ہوں جن کے تقویٰ‘ جن کی صداقت پر کوئی شخص اعتراض نہ کرسکے اور یہ چار صادق اور متقی لوگ اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیں‘ ہم نے یہ سارا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اگر کسی ایک گواہ کی صداقت یا تقویٰ چیلنج ہو جائے تو کیا اس کے باوجود حد نافذ ہو سکتی ہے؟“
جواب :  گواہوں کے بارے میں کتب فقہ میں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ  ایسے گواہوں کی گواہی قبول ہوگی  جن میں 5 شرطیں پائی جاتی ہوں :
1:            العقل )گواہ ؛سمجھدار ہو (
2:            البلوغ )گواہ ؛بالغ ہو (
3:            الحریۃ )گواہ؛ آزاد ہو(
4:            الاسلام )گواہ؛ مسلمان ہو (
5:            العفۃ عن الزنا )گواہ؛ خود زانی نہ ہو (

)بدائع الصنائع ج 5 ص 498(

اگر کسی گواہ میں مذکورہ پانچ شرائط میں سے کوئی شرط ختم ہوجائے یا وہ اپنے موقف سے انکار کر لے تو شریعت نے انسان کی عزت و حرمت کا خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حدود شبہات کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہیں ۔اس وجہ سے اب اس پر حد نافذ نہیں ہوگی ۔البتہ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر  تعزیری کارروائی کی جا سکتی ہے ۔
سوال نمبر8:        آپ کا آخری سوال یہ ہے کہ” کیا مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے یا پھر یہ فریضہ عام لوگ بھی سرانجام دے سکتے ہیں؟“
جواب :                  اس کا جواب یہ ہے کہ حد نافذ کرنا  یہ کام صرف ریاست ہی کا ہے ۔ ریاست سے مطالبہ کرنا عوام کا حق ہے  عوام  اس کامطالبہ کرسکتے ہیں ۔ البتہ عوام کو یہ حق حاصل نہیں  ہے کہ وہ لوگوں کو سزا دیں ۔
 دعا ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ فرماکر امن کا گہوارہ بنائے ۔
والسلام
مولانا محمد الیاس گھمن 
امیر :اتحاد اہل السنت والجماعت العالمی 

دینی مدارس میں خدمات انجام دینے کے خواہش مند حضرات اور عملہ کی تلاش کے لیے فکر مند مدارس و مساجد کے لیے عظیم خوشخبری۔


ولی کامل مولانا محمد حسن مدظلہ، لاہور ۔۔۔بائیں۔۔ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ


داڑھی کی شرعی حیثیت ۔ جاوید احمد غامدی کو جواب

 

 

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن﷾

بانی و امیر :عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت

داڑھی رکھنا یہ دین کاکوئی حکم نہیں ہے لہٰذا اگرکوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے  کہ وہ کسی فرض اور واجب کاتارک ہے یا اس نے کسی حرام یا ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ پر جو کچھ فرمایاہے وہ داڑھی رکھنے کی ہدایت نہیں ہے بلکہ اس بات کی ممانعت ہے کہ داڑھی اور مونچھیں رکھنے کی کوئی ایسی وضع اختیار نہیں کرنی چاہیئے جو متکبرانہ ہو کیونکہ تکبر ایک جرم ہے۔                                                                      )جاوید غامدی کا ایک ویڈیو کلپ (
یہ نظریہ ہے  نام نہاد جاویداحمد  غامدی صاحب کا ۔ موصوف نے جہاں اور دین کے مسلمات سے انکار کیا ہے اور جمہور اہل السنت والجماعت کے موقف سے عملاً دستبرداری اختیار کی ہے وہاں پر داڑھی کے اجماعی مسئلے کو بھی بے وقعت کر نے کی مذموم کوشش کی ہے ۔
آزاد خیالی کی اس دنیا میں موصوف نے جن متفقہ عقائد اور مسائل کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے ہم ان شاء اللہ وقتا فوقتا اس پر بادلائل گفتگو کرتے رہیں گے اور موصوف کے باطل نظریات پر مشتمل عنقریب ایک تفصیلی کتاب  امت کے حوالے کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں ۔
آج کل کے ”دانشور“ جن کا علمی اور عملی سلسلہ خود انہیں بھی معلوم  نہیں ہے وہ داڑھی کے مسئلہ میں اعتقاداً وعملاً بہت افراط وتفریط سے کام لے رہے ہیں ۔ غامدی صاحب کی طرح بلکہ ان  سے بھی  ایک قدم بڑھ کر جناب  مودودی صاحب  کا نظریہ بھی داڑھی کے بارے میں وہ نہیں جو کتاب و سنت سے ملتا ہے بلکہ وہ اس اجماعی مسئلے کو بھی بدعت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اسےواجب توکجا اسے سنت ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ بڑی داڑھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے مگر شرعی حکم پر نہیں بلکہ ایک عادت کے طور پر۔
چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو غلط بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں جو بالعموم آپ حضرات کے ہاں رائج ہیں آپ کا یہ خیال کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑی داڑھی رکھنا سنت رسول یا  اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم  ہے ، یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ آپ عادت رسول کو بعینہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوٹ کیے جاتے رہے ہیں ۔ مگر میرے نزدیک صرف یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کے اتباع پر زور دینا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک خطرناک تحریف دین ہے جس سے نہایت برے نتائج پہلے بھی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہونے کا خطرہ ہے ۔ نیز یہ بھی لکھتے ہیں کہ مجھے سخت افسوس ہے کہ بڑے بڑے علماء خود حدود شرعیہ کو نہیں سمجھتے اور ایسے فتوے دیتے ہیں جو صریحا حدود شرعیہ سے متجاوز ہیں ۔

(ترجمان القرآن مارچ تا مئی، جون 1946ء ص 179 بحوالہ مجموعہ رسائل قاضی مظہر رحمہ اللہ)

قارئین کرام!اپنی جماعت کا رشتہ اسلام سے نتھی کرنے والوں کا نظریہ آپ نے دیکھ لیا اور  اب  ملاحظہ کیجیے ان لوگوں کا نظریہ جو اپنی نسبت حدیث کے مقدس عنوان سے مشہور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں : ان کا موقف یہ ہے کہ داڑھی طولاً وعرضاً جتنی بڑھتی  ہے بڑھنے دیں، جدھر جاتی ہے جانے دیں اور وہ اس کو شرعی داڑھی قراردیتے ہیں اور مشت بھر داڑھی کو وہ غیر شرعی سمجھتے  ہیں۔
دارالحدیث محمدیہ ملتان سے شائع ہونے والے داڑھی سے متعلقہ اشتہار میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک مشت  داڑھی کے شرعی حکم اور سنت شرعیہ ہونے کے یہ تینوں منکر ہیں ۔پہلا کہتاہے کہ داڑھی؛” حکم دین“ ہی نہیں ہے۔دوسرا کہتاہے کہ بڑی داڑھی رکھناعادت ہے،”سنت نہیں“اورتیسرا اس کے ایک مشت سے زائدکے کاٹنے کو” غیر شرعی“  کہتاہے۔
افراط وتفریط کی ان گھاٹیوں سے بہت دور اہل السنۃ والجماعۃ کا مسلکِ اعتدال اور روشن راستہ دیکھیے جس پر آپ کو امت اسلامیہ کا جم غفیر چلتا ہوا نظر آئے گا ۔  اہل السنت والجماعت کاموقف یہ ہے کہ کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔ اس کو جو سنت کہاجاتاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کا حکم سنت سے ثابت ہے یا یہ مطلب ہے کہ داڑھی رکھنا شرعی  طریقہ ہے کیونکہ سنت کا ایک معنیٰ طریقہ بھی آتا ہے۔ لہٰذا داڑھی کو سنت لکھنے اور کہنے سے یہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے  کہ یہ ”واجب“ نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ اور تمام علمائے اہل السنۃ والجماعۃ کا اتفاق ہے کہ کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا ”واجب“ ہےاور ایک مشت سے کم داڑھی  نا جائز اور حرام ہے اس سلسلے میں چند احادیث پیش خدمت ہیں۔

1:          عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خالفوا المشرکین اوفروا اللحیٰ واحفوا الشوارب۔                  (بخاری :ج2 ص875)

ترجمہ:      حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ مونچھیں کٹاؤ۔
امام ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں فرماتے  ہیں :فی حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عند مسلم خالفوالمجوس وھوالمراد فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فانہم کانوا یقصون لحاہم ومنہم من کان یحلقہا۔)فتح الباری ج10 ص 429(
ترجمہ :      حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث امام مسلم رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے اس میں خالفوالمشرکین کی  بجائے خالفوالمجوس کے الفاظ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی  مراد ہے  کیونکہ مجوسیوں کی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی داڑھیوں کو مونڈتے تھے ۔
2:                                    عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس۔         )            صحیح مسلم ج 1 ص 129(
ترجمہ:      حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

3:  عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔                (صحیح مسلم:  ج 1 ص 129)

ترجمہ:      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں ان میں مونچھوں کو کٹانا اور داڑھی کو بڑھانا۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: معناہ انہا من سنن الانبیاء اس کامعنی یہ ہے کہ دس چیزیں انبیاء کے سنتوں میں سے ہیں۔
 نیز امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحصل خمس روایات، اعفوا، واوفوا، وارخوا، وارجو، ووفروا۔             (شرح صحیح  مسلم:  ج 1 ص 129)
خلاصہ یہ ہے کہ روایات میں داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور پانچوں قریب المعنی ہیں یعنی داڑھی بڑھاؤ اور یہ پانچوں امر کے صیغے ہیں اور تمام علماء حقہ کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے اگرداڑھی رکھنا محض عادتاً تھا اور دین کا حکم نہیں تھا تو امت کو اتنی تاکید کے ساتھ حکم دینے کا کیا مطلب؟؟
4:                                    عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاخذ من لحیتہ من عرضہا وطولہا۔                             (جامع ترمذی: ج 2 ص 105)
ترجمہ:      نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لمبائی اور چوڑائی سے اپنی داڑھی کے کچھ بال لے لیتے تھے۔نیز اس میں حج وعمرے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
5:            عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بکتابہ مع رجل الیٰ کسریٰ ……ودخلا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وقد حلقا لحاھما و اعفیا شواربھما فکرہ النظر الیہما وقال ویلکما من امرکما بہذا؟ قالا امرنا ربنا یعنیان کسریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی(البدایۃ والنہایۃ: ج 2 ص 662، حیاۃ الصحابۃ: ج 1 ص 115)
ترجمہ:      حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قاصد کو شاہ ایران کی طرف پیغام دے کر بھیجا…………… شاہ ایران  کے  دو قاصدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی  اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمہیں یہ شکل بگاڑنےکا کس نے حکم دیاہے؟ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایاہے۔
6:  عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ۔۔ ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء  ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب ۔  )            مسند الفردوس  ج 4 ص 157 رقم الحدیث 6488(
ترجمہ:      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کے لیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے خوبصورتی بخشی ۔
اس کے علاوہ بھی اس مضمون کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات قدر مشترک طور پر سامنے آتی ہے کہ جو لوگ مشت بھر داڑھی نہیں رکھتے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی مخالفت کر کے مشرکین اور مجوسیوں کے طرز  کو اپنائے ہوئے ہیں کل  قیامت کے دن خداوند قہار کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائیں گے؟ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھ لیا کہ کیا تمہیں میری شکل و صورت سے مشرکین و مجوسیوں کی تہذیب زیادہ پسند تھی؟اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا  تو کس ذات سے شفاعت کی امید رکھیں گے؟ ان تمام نصوص کے پیش نظر فقہاء امت اس بات پر متفق ہیں کہ داڑھی کم از کم  مشت بھر رکھنا  واجب ہے یہ اسلام کا شعار ہے اور اس کا بالکل منڈانا یامشت بھر سے کم کرنا  حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

آثار صحابہ رضی اللہ عنہم  وتابعین رحمہم اللہ:

1:  عن نافع کان ابن عمر رضی اللہ عنہما اذا حج او اعتمر قبض علی لحتیہ فما فضل اخذہ۔                                                  (صحیح بخاری: ج 2 ص 875)
ترجمہ:       حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرلیتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے اور زائد بالوں کو کاٹ دیتے۔
پہلے حضرت  ابن عمررضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے داڑھی بڑھانے کا حکم نقل فرمایا پھر اس کی مقدار خود اپنے عمل سے بتائی ہے۔ممکن ہے کہ اس حدیث کو پڑھ کرکسی کے  ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کا یہ عمل عام نہیں بلکہ حج اور عمرہ کے  ساتھ خاص ہے۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: الذی یظہر ان ابن عمر کان لایخص ہذا التخصیص بالنسک بل کان یحمل الامر بالاعفاء علی غیر الحالۃ التی تتشوہ فیہا الصورۃ بافراط طول شعر اللحیۃ اوعرضہ۔             (فتح الباری شرح صحیح بخاری : ج 10 ص 430)
ترجمہ:       ظاہر بات ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے اس عمل کو  حج اور عمرہ کے ساتھ خاص نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ داڑھی بڑھانے کے حکم کو اس حالت پر محمول کرتے تھے جس میں داڑھی لمبائی چوڑائی میں اس قدر بڑھی ہوئی  نہ ہو کہ بد صورت اوربدنما لگنے لگے ۔
2:                                    عن ابن عمر رضی اللہ عنہما انہ کان یقبض علیٰ لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضۃ۔                                                                    (کتاب الآثار لامام محمد: ص 203)
ترجمہ:      حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمااپنی داڑھی کے بالوں کو  مٹھی میں لیتے اور زائد بال کاٹ دیتے تھے۔
3:                                    عن ابی زرعۃ قال کان ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یاخذ مافضل من القبضۃ۔                                         (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 6 ص 108)
ترجمہ:      حضرت ابو زرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے پھر جو مٹھی سے زائد بال ہوتے ان کو کاٹ دیتے۔
4:                                    عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ ان یؤخذ منہا۔                                                                  (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 6 ص 109)
ترجمہ:       حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین داڑھی کے ایک مشت  سے زائد بالوں کے کاٹنے کی اجازت دیتے تھے۔
5:                                    عن ابراہیم قال کانوا یطیبون لحاہم ویاخذون من عوارضہا ۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 6 ص 109)

ترجمہ:      حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی داڑھیوں کوخوشبو لگاتے اور ان کی چوڑائی سےبال کاٹ لیتےتھے۔

اقوال فقہاء اور داڑھی کا وجوب ومقدار

فقہاء احناف:

1:            واماالاخذ منہا وہی دون ذالک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد۔
                              (فتح القدیرشرح ہدایہ : ج 2 ص 270)
ترجمہ:      داڑھی کے بال کاٹ کر اس کو ایک مشت  سے کم کرنا جیسا بعض مغربی اور مخنث لوگ ایسا کرتے ہیں اس کو کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا۔
2:                   یحرم علی الرجل قطع لحیتہ وفیہ السنۃ فیہا القبضۃ(در مختار: ج 4 ص 223)
ترجمہ:      مرد کےلئے داڑھی کا کاٹنا حرام ہے اس کی مسنون مقدار ایک مشت ہے۔
3:            شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں: حلق کردن لحیہ حرام است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است۔     (اشعۃ اللمعات : ج 1 ص 228)
ترجمہ:      داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار اس کو بڑھانا واجب ہے۔
4:            خاتم المحدثین  علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اما قطع ما دون ذالک فحرام اجماعا بین الائمہ ۔                                                                          (فیض الباری: ج 4 ص 380)
 [داڑھی ]ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے اور اس پر ائمہ کا اجماع ہے۔

فقہ شافعی:

محدث عبدالروف مناوی شافعی لکھتے ہیں : اعفاءا للحیہ و ترکہا متی تکثر بحیث تکون مظہرا من مظاہر الوقار فلا تقصر تقصیرا یکون قریبا من الحلق ولا تترک حتیٰ تفحش بل یحسن التوسط فانہ فی کل شیئ حسن ۔ )فقہ السنۃ ج 1 ص 38(
ترجمہ :      داڑھی کو بڑھانا اور اس کو چھوڑنا یہاں تک کہ داڑھی زیادہ ہو جائے لیکن ایسے طور پر کہ پروقار نظر آئے اور اتنی مقدار تک نہ کاٹے کہ  مونڈی ہوئی دکھائی دینے لگے ۔اور اس قدر لمبی بھی نہ ہونے دے  کہ بدنما لگنے لگے بلکہ درمیانی [ مشت بھر ] داڑھی رکھے کیونکہ ہر چیز میں اعتدال بہتر ہے ۔

 فقہ مالکی:

فقہ مالکی کے نامور محدث اور فقیہ  قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یکرہ حلقہا وقصہا وتحریقہا واما الاخذ من طولہا وعرضہا فحسن وتکرہ الشہرۃ فی تعظیمہا کما تکرہ فی قصہا وجزہا۔                      (شرح مسلم للنووی: ج 1 ص 129)
ترجمہ:      داڑھی کو مونڈنا اور زیادہ کانٹ چھانٹ کرنا  مکروہ ہے البتہ اس کے طول وعرض سے کچھ بال کاٹ لینا بہتر ہے اور جیسا کہ داڑھی زیادہ کاٹناچھانٹنا مکروہ ہے ایسے ہی لمبی داڑھی میں شہرت بھی مکروہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک مشت سے کم اور زیادہ خلاف سنت اور ایک مشت سنت کے مطابق ہے۔

 فقہ حنبلی  :

 الشیخ منصور بن یوسف حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ویعفی لحیتہ ویحرم حلقہا۔

 (الروض المربع: ج 1 ص 19، مختصر المقنع :ص 96)

ترجمہ:      داڑھی کو[ مسنون مقدار تک]بڑھانا ضروری اور اس کا منڈا نا حرام ہے۔
ان تمام حوالہ جات سے یہ ثابت بات واضح ہوگئی کہ مسنون مقدار داڑھی رکھنا واجب اور منڈوانا حرام ہے۔
اس لیےنام نہاد اسکالرجناب غامدی صاحب،مودودی صاحب اور غیر مقلدیت کا فتنہ قرآن وسنت اور جمہور صحابہ و ائمہ اسلاف کو چھوڑ کر گمراہی  پر گامزن ہیں اللہ تعالیٰ  ان کے وساوس اور مکر وفریب سے امت محمدیہ کی حفاظت فرمائے ۔

بلاگ آرکائیو