8 اپریل، 2014

" اس کو الو کا پٹھا نہ کہیں تو اور کیا کہیں.. "

یہ ان دنوں کی بات ھے جب تحریک ختم نبوت زوروں پر تھی.. مولانا احمد علی جالندھری شیخو پورہ تشریف لائے اور ایک جلسے میں مرزا غلام احمد قادیانی کو الو کا پٹھا کہہ دیا..
قادیانیوں نے ان پر مقدمہ کر دیا..
مولانا احمد علی جالندھری پریشان تھے کہ اب اس کو الو کا پٹھہ کیسے ثابت کروں.. انہوں نے اپنی اس پریشانی کا حال مولانا لال اختر حسین کو سنایا اورکہا کہ اگر اسے الو کا پٹھہ ثابت کردیں تو میں آپ کو انعام دوں گا اور آپ میرے صفائی کے گواہ ھوں گے..
مولانا لال اختر حسین نے تاریخ اور دن نوٹ کیا اور مقررہ روز شیخوپورہ کی عدالت میں پہنچ گئے جہاں دو مجسٹریٹ مقدمہ سن رھے تھے.. مولانا لال اختر حسین نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب سے عدالت کے سامنے دو حوالے پیش کیے اور کہا..
" مرزا اپنی کتاب میں لکھتا ھے..
" جب نئی نئی گرگابیاں بازار میں آئیں تو میری ماں نے گرگابی لے کر دی.. اس سے پہلے میں دیسی جوتی پہنا کرتا تھا.. جب گرگابی پہن کر چلتا تو میرے ٹخنے آپس میں ٹکراتے تھے اور کبھی کبھی تو خون بھی بہہ نکلتا تھا.. میں نے ماں سے کہا.. ماں یہ مجھے کیا لے دیا.. میری ماں نے جب میرے پاؤں کی طرف دیکھا تو دایاں جوتا بائیں اور بایاں دائیں پاؤں میں پہن رکھا تھا.. کہنے لگا.. ماں مجھے پتہ نہیں چلتا کہ دایاں کون سا ھے اور بایاں کون سا..
ماں نے اس جوتے کے جوڑے پر دو پھمن لگا دیے.. دائیں پر سرخ اور بائیں پر سبز.. مرزا کہتا ھے کہ اس کے باوجود میں جوتا الٹا پہن لیا کرتا تھا..
دوسرا حوالہ یہ دیا.. مرزا کہتے ھیں.. "مجھے گڑ کھانے کا بہت شوق ھے.. گھر سے چوری گڑ لے کر اپنی جیب بھر لیتا.. مجھے پیشاب کی بھی بیماری تھی.. مجھے باربار پیشاب آتا تھا.. جیب میں ایک طرف مٹی کے ڈھیلے اور دوسری طرف گڑ کے ڈھیلے جمع کرتا تھا.. اکثر میرے ساتھ یہ ھوتا تھا کہ استنجاء کی جگہ گڑ استعمال کرلیا کرتا تھا اور گڑ کی جگہ مٹی کا ڈھیلا کھا لیا کرتا تھا.. "
دونوں مجسٹریٹ مسکرانے لگے..
ایک مجسٹریٹ نے دوسرے سے کہا.. " اس کو الو کا پٹھا نہ کہیں تو اور کیا کہیں.. "

بلاگ آرکائیو