9 اپریل، 2014

جتنی دیر وہ پڑھتا رہتا، ماں جائے نماز سے نہ اٹھتی۔

منور آج پھر سر پکڑے پریشان سا بیٹھا تھا مگر ”کیا ہوا منو! فکر نہ کر....“ کہہ کر تسلی دینے والی ماں چلی گئی تھی۔ وہ اوسط ذہانت رکھنے والا عام سا انسان تھا۔ شروع ہی سے اپنے ہر ٹیسٹ اور پیپر کے دنوں میں وہ یونہی پریشان سا ہوکر بیٹھ جاتا تھا۔ کتابیں ارد گرد پھیلائے، گیس پیپر ہاتھ میں پکڑے پریشان حال منور کو دیکھ کر ماں مسکراتی، پھرکہتی:
”ارے منو! پاگل نہ بن، تیرا کام پڑھنا ہے تو وہ کر، میرا کام دعا کرنا ہے وہ میں کرتی ہوں، نتیجہ خدا پر چھوڑ دے بچے!“
وہ کچھ دیر اس کے بال سہلاتی رہتی پھر کچھ پڑھ کر اس پر پھونکتی تو اسے لگتا پریشانی پر لگا کر اڑگئی ہے ،پھر جتنی دیر وہ پڑھتا رہتا، ماں جائے نماز سے نہ اٹھتی۔ چنانچہ اس کو دعاﺅں کی برکت سے نتیجہ ہمیشہ شان دار نکلتا تھا۔
ایسا ہی تب ہوا تھا ،جب وہ نوکری کی تلاش میں اپنی جوتیاں اور شہر کی سڑکیں گھسا رہا تھا۔ اتنے انٹرویو دے دے کر وہ دل توڑ بیٹھا اور ایک دن ماں کی گود میں سر رکھ کر رونے لگا۔
”ماں! میں دنیا سے ہار گیا ہوں، دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتا، ماں تیرا بیٹا کسی کام کا نہیں۔“
اس دن ماں مسکرانے کی جگہ ہنس ہی پڑی۔ ”او منو! جھلے! تو تو لڑکیوں کی طرح رو رہا ہے، شرم نہیں آتی تجھے؟ مقابلہ ابھی شروع ہوا نہیں اور تو ہار مان رہا ہے، پاگل نہ ہو، تجھے ہزار بار سمجھایا ہے، ہم دونوں اپنا اپناکام کرتے ہیں، رب اپنا کرے گا تو کیوں فکر کرتاہے۔“ پھر ایسا ہی ہوا تھا۔اسے ماں کی کرامت ہی کہنا چاہیے کہ ایسی پوسٹ پر بغیر سفارش اور رشوت کے اس کا تقرر ہوگیا تھا جو بغیر تگڑی سفارش اور ڈھیر سی رشوت کے بغیر بظاہر ناممکن تھا۔
پھر کئی موقع آئے اس کی زندگی میں، کبھی کوئی پراجیکٹ، کبھی تبادلے کا مسئلہ، وہ ماں کی دعا کو ڈھال بنائے دنیا سے لڑتا رہا اور جیتتا رہا۔ نجمہ گھر کے سونے آنگن میں اچھا اضافہ تھی، پھر دو جڑواں بچیوں نے جیسے اس کی ہر آرزوپوری کردی تھی۔ ماں کی دعاﺅں سے وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہا تھا۔ یوں جیسے ہلکے ہلکے قدموں سے پھولوں بھری شاہراہ پر چلا جارہا ہو کہ اچانک پیرمیں ایک کانٹا چبھ گیا۔ یوں تو اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ اب وہ کیا کرے گا؟اس کی ڈھال اس سے چھن گئی تھی۔ دنیا کے تیر نشانے پر لگنے والے تھے۔ ماں کی قبر کے پاس، سر پکڑے پریشان سا منور، ننھا منو بن گیا تھا۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی مگر تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔ وہ روئے چلا جارہا تھا، زندگی کی ایک ایک یاد آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ باپ کی موت، دادی کا اسے اور ماں کو گھر سے نکالنا، ماں کا لوگوں کے گھر کام کرنا، ماموﺅں سے جھگڑ کر اس کی تعلیم کا بندوبست کرنا، اس کی زندگی کا ہر نیا قدم ماں کے دیے اعتماد اور دعاؤں کے حصار میں اٹھتا تھا۔ وہ تو زندگی یوں بسر کررہا تھا جیسے بچہ ماں کی انگلی تھام کر سڑک پار کرتا ہے، دائیں بائیں دیکھے بغیر، بند آنکھوں کے ساتھ ،بس مضبوطی سے اس انگلی کو پکڑے ہوئے اور اب اس بچے سے وہ انگلی چھوٹ گئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ ابھی کوئی تیز رفتار گاڑی اسے کچل کر چلی جائے گی۔
وہ آنسو پونچھتا ہوا بوجھل قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔
اس کے گھر آجانے سے اس کی بیوی اور بچے پرسکون ہوگئے تھے۔ وہ سو چکے تھے مگر وہ کیسے سوجاتا۔اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو ٹپ ٹپ گر کر اس کا تکیہ بھگوتے رہے۔ کروٹیں بدلتے بدلتے، جانے رات کے کس پہر وہ سحر زدہ سا ہوکر اٹھ بیٹھا۔ ماں اس کے سامنے کھڑی تھی، ہمیشہ کی طرح اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی۔
”او جھلے، پاگلے ساری زندگی بھی یوں رو رو کر مجھے ستاتا رہا، اب تو چین لینے دے۔ بچہ نہیں رہا اب تو! میری بات غور سے سن۔ ساری عمر تجھے یہی ایک سبق سکھاتی رہی تھی کہ پریشان ہونا مسئلے کا حل نہیں۔ انسان کے ذمے صرف دو کام ہیں۔ کوشش اور دعا ،نتیجہ اس کا نہیں رب کا کام ہے، تو کوشش کر اور....“
”جبھی تو رو رہا ہوں! ماں اب دعا کون دے گا مجھے ؟یوں ایک دم اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ہے کس کے سہارے؟“ وہ پھر سے سسکنے لگا تھا۔
”کفر نہ بک منو! کفر نہ بک، سہارا صرف سوہنے رب کی ذات ہے، وہ موجود ہے ہمیشہ سے، ہمیشہ کے لیے، اس نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ صرف ماں کی دعا قبول ہوگی، تو خود کیوں نہیں مانگتا؟ اور اب تو تو خود باپ ہے، سربراہ ہے اپنے خاندان کا، یہ بچوں والی حرکتیں چھوڑ، خبردار جو تو پھر رویا۔“ انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا تھا۔
٭
کیا یہ خواب تھا؟ ناشتے کی میز پر وہ چائے کے کپ میں چمچ چلاتے ہوئے جانے کب سے سوچے چلے جارہا تھا جب نجمہ کی آواز نے اس کے ارتکاز کو توڑ دیا۔ وہ سن نہیں پایا تھا کہ اس نے کیا کہا ہے۔
”کچھ کہا تم نے؟“ ٹھنڈی چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”ہاں! مجھے معلوم ہے کہ اماں کے بعد آپ بہت پریشان ہیں، مگر اب بہت دن ہوگئے ہیں۔ آپ کو زندگی کی طرف آنا ہوگا.... شاید میں اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں پارہی....“
”نہیں تم کہو۔“
”دیکھیں! مائیں چلی جاتی ہیں مگر ان کی دعائیں کبھی نہیں مرتیں، ہمیشہ ہمارے سر پر ایک سائبان بن کر ہماری راہنمائی اور حفاظت کرتی ہیں۔“
وہ یک ٹک اسے دیکھے چلا گیا۔ اتنی سی بات وہ کیوں نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس کے ساتھ ہر قدم پر کامیابی کی دعا تھی، نجمہ نے کیسے سمجھ لی؟ وہ حیران تھا مگر اس کی یہ حیرت بھی جلد ہی دور ہوگئی تھی، جب وہ بالکل ماں کی طرح اس کی دونوں بچیوں کے لیے مصلیٰ بچھائے دعا میں مصروف تھی۔ ماں کی دعا کی حقیقت ایک ماں سے بڑھ کر بھلا کون جان سکتا تھا۔ اس نے سوچا ہاں واقعی مائیں مرجاتی ہیں مگر ان کی دعائیں زندہ رہتی ہیں۔

بلاگ آرکائیو