11 اپریل، 2014

اکثر لوگوں کا تو گالیوں کے بغیر کلام ہی مکمل نہیں ہوتا۔



گالی دینا یا کسی کو برا بھلا کہنا اخلاق رزیلہ میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو بات بات پر اپنی زبانوں کو گالیوں سے گندا کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا تو گالیوں کے بغیر کلام ہی مکمل نہیں ہوتا۔ مگر ایک با وقار اور بردبار شخص ہمیشہ اس سے اپنی زبان کو محفوظ رکھتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِذَا خَاصَمَ فَجَرَ "جب جھگڑا کرے تو گالی دے"
﴿جامع ترمذی - 2728﴾
گالی دراصل اپنے مخالف کو کمزور کرنے اور کبھی کبھی اشتعال دلانے کے لیے دی جاتی ہے۔ مگر ایک بندۂ مومن اس برے ہتھیار کا کسی بھی صورت میں استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے۔ حالانکہ ردّعمل میں اگر وہ بھی کوئی سخت رویّہ اختیارکر لے اور برابری کی حد تک کوئی اقدام کر لے تو اس سے مواخذہ نہیں ہو گا۔
قرآن مجید میں ہے:
لاَّ یُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوٓئ ِ مِنَ الْقَوْلِ ِٓلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اللّہُ سَمِیْعاً عَلِیْماً۔ِٓان تُبْدُواْ خَیْراً أَوْ تُخْفُوہُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّہَ کَانَ عَفُوّاً قَدِیْرا۔
﴿سورۃ النساء - 148،149﴾
‘‘اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ سب کچھ سننے او ر جاننے والا ہے۔ ﴿مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو جواب دینے کا حق ہے﴾ لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا برائی سے درگزر کرو پس یقیناً اللہ تعالٰی پوری معافی کرنے والا ہے اور پوری قدرت والا ہے۔"
اسی بات کو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں دوسرے انداز میں فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصِّيَامُ جُنَّةٌ إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ صَائِمًا فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ فَإِنْ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ إِنِّي صَائِمٌ
﴿سنن ابی داؤد - 2343﴾
‘"حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص روزہ دار ہو تو اس کو چاہئے کہ بیہودہ نہ بکے اور نہ کوئی جہالت کام کرے اور اگر کوئی دوسرا کوئی شخص اس سے لڑائی جھگڑا کرے گا یا گالی دے گا تو اسے کہہ دینا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں میں روزہ دار ہوں"
اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ مومن بندہ بھی جواب دے سکتا ہے مگر اعلیٰ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ مومن کسی بھی طرح بلندی سے پستی کی طرف نہ آئے۔ بلکہ اس کے اور اُس زبان دراز یا گالی دینے والے کے درمیان واضح فرق نظر آنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؒ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُہ کُفْر
﴿صحیح مسلم - 128﴾
"کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے"
ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے گالی گلوچ کو کبائر میں شمار کیا ہے۔
عَنْ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَال:َ مِنَ الْکَبَائِرَ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ، نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُّبُ أَبَاہُ وَیَسُبُّ أُمَّہ، فَیَسُبُّ أُمَّہ،۔
﴿صحیح بخاری-5563، ترمذی -1962﴾
"حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنے والدین کو سب و شتم کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔
صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ﴿وہ اس طرح کہ﴾ وہ کسی کے والد کو گالی دیتا ہے جواب میں وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتا ہے۔وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ﴿تو سمجھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دے دی﴾"
گالیں بکنے سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے گالم گلوچ کرنے والوں کے بارے میں وعید فرمائی ہے اور اسے مفلس قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَکَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَکَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَی مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔
﴿صحیح مسلم - 6483﴾
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟
صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہو گا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا-"

بلاگ آرکائیو