22 جولائی، 2015

اٹھانے کو یہ دل چاہے ترا ہر ناز بارش میں



اٹھانے کو یہ دل چاہے ترا ہر ناز بارش میں
کہ بھاتا ہی نہیں مجھ کو کوئی ناراض بارش میں
جو چاہوں گنگنانا تو دلِ سادہ مرا رو دے
نجانے کھو گیا ہے کیوں مرا ہر ساز بارش میں
گھٹا چھاتے ہی کالی تکنے لگتا ہے فضاؤں میں
نجانے سوچتا ہے کیا مرا ناراض بارش میں
ٹھٹھرتے لب، لٹیں الجھیں، سمٹتا بھیگتا آنچل
کہ ہوتا منفرد ہے کب مرا انداز بارش میں
نظارہ جن کا بن جائے دلوں کے درد کا درماں
فقط ملتا ہے پھولوں کو ہی یہ اعجاز بارش میں
کڑے موسم میں جب مجھ سے تعلق وہ نہیں رکھتا
اٹھائے جاتا ہے پھر کیوں مرا ہر ناز بارش میں
چھپا ہے درد کیا دل میں جو بوندوں سے ابھرتا ہے
جیا ! کیوں کپکپاتی ہے تری آواز بارش میں