16 جنوری، 2021

طاقتور انجن خستہ حال ٹریک پر چلانے سے مال گاڑی الٹی – Daily

[ad_1]








مرزا عبدالقدوس
شیخ رشید کی ناقص منصوبہ بندی نے ریلوے کی ساکھ مٹی میں ملادی۔ جبکہ اربوں روپے کا نقصان بھی ادارے کو پہنچا ہے۔ ذرائع کے مطابق مال بردار گاڑی میں چار ہزار ہارس پاور کا طاقتور انجن لگاکر خستہ حال ٹریک پر چلایا گیا، جس کے نتیجے میں مال گاڑی الٹ گئی اور تقریباً تین سو میٹر تک ٹریک بھی ادھڑ گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ٹریک کی بحالی میں کئی دن لگیں گے اور مسافر ٹرینیں بیس سے تیس گھنٹے لیٹ ہوں گی۔ جبکہ ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے دعوے کے ساتھ جو نئی مال بردار ٹرینیں ٹریک پر لائی گئی تھیں، رحیم یار خان کے قریب حادثے اور اس کے نتیجے میں ریلوے ٹریک کی تباہی کے بعد اسی مقام پر کھڑی ہیں۔ تاجر برادری کا اربوں روپے کا سامان خراب ہو رہا ہے اور جس کا ازالہ بھی پاکستان ریلوے کو کرنا ہوگا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق نئے ریلوے انجن اور بوگیاں خریدے بغیر ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ دھڑا دھڑ نئی ایکسپریس و پیسنجر ٹرینیں اور مال بردار گاڑیاں چلانے کے وفاقی وزیر شیخ رشید کے شوق نے پاکستان ریلوے کو اربوں روپے کا انجکشن لگا دیا ہے۔ جبکہ ریلوے کی ساکھ بھی مٹی میں ملا کر رکھ گئی دی گئی ہے۔ جسے بحال کرنے کیلئے اب کافی عرصہ درکار ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ علامہ اقبال ایکسپریس، ملت ایکسپریس، زکریا ایکسپریس، فرید ایکسپریس، پاکستان ایکسپریس، قراقرم ایکسپریس، عوامی ایکسپریس اور ایسی دیگر ٹرینیں جو روزانہ ہزاروں مسافروں کو سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرکے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتی تھیں، اب ان میں سے بعض سرے سے ہی منسوخ کردی گئی ہیں۔ جبکہ دیگر تمام ایکسپریس ٹرینیں 20 سے 30 گھنٹے تاخیر کے ساتھ لاہور سے کراچی اور کراچی سے راولپنڈی، پشاور کا سفر طے کر رہی ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ رحیم یار خان میں حادثے کی ذمہ دار ریلوے انتظامیہ، خصوصاً وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید ہیں۔ اب ریلوے انتظامیہ نے وفاقی وزیر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نئی مسافر ٹرینیں اور مال بردار گاڑیاں چلانے سے گریز کریں۔ ذرائع کے مطابق اگر ریلوے کے اعلیٰ افسران چند ماہ پہلے یہی حقائق شیخ رشید احمد کو بتادیتے کہ ریلوے کے پاس نہ اضافی انجن ہیں اور نہ اضافی بوگیاں، جو نئی مسافر ٹرینیں چلانے کے لئے ضروری ہیں۔ اور یہ کہ چار ہزار ہارس پاور کے انجن کے ساتھ 25/30 بوگیاں لگاکر دو سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلانے کی ریلوے لائن متحمل نہیں ہوسکتی تو حالیہ حادثہ نہ ہوتا اور بھاری مالی نقصان کے علاوہ ریلوے کی ساکھ بھی تباہ نہ ہوتی۔ ذرائع کے بقول سابقہ حکومت نے چار سو ہارس پاور کے انتہائی طاقتور انجن خریدے تھے، جو محفوظ ریلوے ٹریک پر دو سو بیس کلو میٹر سے بھی زائد رفتار کے ساتھ کوچز اور مال بردار گاڑی کو لے جا سکتے ہیں۔ لیکن ریلوے لائن خستہ اور پرانی ہیں، جو ایک خاص طاقت اور خاص رفتار سے زائد گاڑی کی رفتار کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ لیکن محض کارکردگی دکھانے کے شیخ رشید کے شوق نے حقائق کو نظر انداز کر کے مال بردار ٹرین کو ہیوی انجن کے ساتھ چلایا، جس کی وجہ سے تین سو میٹر سے زائد ریلوے ٹریک ادھیڑ کر رہ گیا۔ جبکہ کئی کلومیٹر ٹریک ناقابل استعمال بھی ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے سرے سے ٹریک کی تعمیر کے بغیر اسے استعمال کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ چار دن سے گاڑیاں تاخیر کا شکار ہیں۔ ایک طرف کا ٹریک محدود رفتار کے ساتھ استعمال کر کے ریلوے کی مرکزی لائن کو چالو رکھا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بوگیوں کو پٹری سے ہٹانے کیلئے جو پہلی کرین جائے حادثہ پر پہنچی، تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی خراب ہوگئی تھی۔
پاکستان ریلوے میں موجود معتبر ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے بغیر تیاری اور منصوبہ بندی کے کئی مسافر ٹرینیں اور مال بردار گاڑیاں چلا دیں اور دعویٰ کیا کہ 2019ء میں بیس نئی گاڑیاں چلائی جائیں گی۔ ریلوے کو شدید نقصان اور اس کی ساکھ کی بربادی کے بعد سے وفاقی وزیر ریلوے بھی گزشتہ چند دنوں سے منظر سے غائب رہے اور اب تک قوم کو اس حادثے کی وجہ اور ریلوے ٹریک کی بحالی میں درپیش مشکلات اور مسائل سے آگاہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے لاہور سے کراچی کے لئے جناح ایکسپریس کا افتتاح کیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے نوید دی تھی کہ 2019ء میں بیس نئی ٹرینیں چلیں گی، جن میں سے دو وی آئی پی ہوں گی۔ ان اسپیشل ٹرینوں میں فائیو اسٹار ہوٹل کے معیار کا کھانا مسافروں کو پیش کیا جائے گا۔ لیکن اب ہزاروں مسافر خوار و پریشان ہو رہے ہیں۔ یہ مسافر مجبوراً بکنگ منسوخ کروا کر بس اڈوں پر دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔
پاکستان ریلوے کی تباہی اور اس کے اندرونی معاملات سے باخبر حافظ سلمان بٹ سے جب ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ہیں۔ ریلوے ٹریک اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس پر چار سو ہارس پاور والے ہیوی انجن کے ساتھ وزنی مال بردار گاڑی نہ صرف چلائی جائے، بلکہ اس کی رفتار بھی دو سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ رکھی جائے۔ اسی طرح ریلوے کے پاس جو چند ایک اضافی انجن اور بوگیاں تھیں، وہ اسی طرح کی ہنگامی صورت حال کے لئے تھیں، تاکہ کسی حادثے کی صورت میں اضافی ٹرین کا بندوبست کر کے ریلوے کا محکمہ اپنے مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچائے۔ لیکن نمایاں ہونے اور کارکردگی کے شوق میں انہی انجن اور بوگیوں کی مدد سے نئی ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ حافظ سلمان بٹ نے بتایا کہ ہر مسافر ایکسپریس ٹرین کے تین سیٹ ہوتے ہیں۔ اگر لاہور سے ایک گاڑی کراچی پہنچتی ہے تو ضروری صفائی اور معمولی چیک اپ کے لئے وہ واشنگ لائن میں جاتی ہے۔ صفائی کے علاوہ اس کے نٹ بولٹ کسے جاتے ہیں۔ اگر کسی بوگی میں زیادہ خرابی ہو تو اسے SICK ڈیپارٹمنٹ میں بھیجا جاتا ہے۔ چند ماہ بعد ان کوچز کو باقاعدہ جنرل چیک اپ کے لئے فیکٹری بھیجا جاتا ہے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ کسی ٹرین کے لئے اضافی کوچز موجود ہی نہیں ہیں، تاکہ درجن بھر کوچز ایک ساتھ فیکٹری بھجوائی جا سکیں۔ اللہ رحم کرے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان ریلوے کے مسافر انتہائی خطرناک صورت حال میں سفر کر رہے ہیں۔ جب حقائق لوگوں کے سامنے آئیں گے تو وہ خوف زدہ ہوں گے۔ ایک سوال پر حافظ سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں نئے ریلوے انجن بنانے اور کوچز بنانے کی فیکٹری موجود ہے۔ باصلاحیت انجینئرز اور ٹیکنیکل اسٹاف بھی میسر ہے۔ لیکن محض کمیشن کی خاطر گزشتہ دو تین ادوار میں بیرون ملک سے ہیوی انجن منگوائے گئے، تاکہ بھاری کمیشن وصول کیا جا سکے۔ ان انجنز کو ہمارا خستہ ریلوے ٹریک برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے یہ درآمد کردہ انجن کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بے کار کھڑے تھے کہ موجودہ وزیر ریلوے نے اپنے شوق کی تکمیل کے لئے حقائق کو سمجھے بغیر ان کو چلا دیا‘‘۔ ایک اور سوال پر حافظ سلمان بٹ نے کہا کہ ’’جب ریلوے بوگیاں ٹریک سے اتر گئیں تو بھاری انجن ان بوگیوں کو روکنے سے پہلے تین سو میٹر تک گھسٹتا چلا گیا، جس سے ریلوے لائن مکمل تباہ ہوگئی۔ جبکہ اس سے پہلے بھی کئی کلومیٹر کا ٹریک اس ہیوی انجن نے تباہ کر دیا تھا، جسے اب نئے سرے سے بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ہمارے مزدوروں اور اسٹاف کی ہمت اور محنت ہے کہ وہ بیس پچیس کلومیٹر کی رفتار سے وہاں سے گاڑیاں گزار رہے ہیں‘‘۔ حافظ سلمان بٹ نے مزید بتایا کہ اس حادثے سے ریلوے کو اربوں روپے کے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ مسافروں، خصوصاً تاجروں کے سامنے اپنی ساکھ کی بحالی میں بھی ریلوے کو لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ جن کاروباری حضرات کا مالی نقصان ہوگا، ان کا اعتماد بحال ہونے میں بھی وقت لگے گا۔
٭٭٭٭٭







[ad_2]

Source link

بلاگ آرکائیو