16 جنوری، 2021

جیل جانا مبارک ثابت ہوا – Daily

[ad_1]








میلکم لٹل 19 مئی 1925ء کو امریکا میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں والد کی وفات پا گئے اور والدہ کے ذہنی مریض بن گئیں۔ یوں ان کے تمام بہن بھائیوں کو مختلف مخیر حضرات میں تقسیم ہو گئے۔ میلکم نے بھی ایک ایسے ہی گھرانے میں پرورش پائی۔ ابھی وہ آٹھ جماعتیں پڑھ پائے تھے کہ ایک روز انہوں نے وکیل بننے کی خوائش کا اظہار کیا تو استاد نے ان سے کہا یہ کالوں کے کرنے کا کام نہیں، تم کارپینٹر بنو۔ اس بات نے ایسا منفی اثر کیا کہ تعلیم سے دل اٹھ گیا اور یوں وہ گھر سے فرار ہو گئے۔ فرار ہونے کے بعد انہوں نے لوگوں کے جوتے پالش کیے، بیرہ گیری کی، نشے کا عادی بنے، چوری چکاری میں ہاتھ ڈالا، ڈکیت گروہ بنایا، یہاں تک کہ پولیس نے دھر لیا۔
محض 20 سال کی عمر میں میلکم کو 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ الزام کے حساب سے میلکم کی سزا صرف دو سال بنتی تھی، مگرخود ان کے مطابق انہیں گوری لڑکیوں سے دوستی کے جرم اتنی طویل سزا دی گئی تھی۔
جیل جانا میلکم کے لئے مبارک ثابت ہوا۔ جیل میں موجود کتب خانے میں انہیں مطالعے کا موقع ملا۔ جس کے بعد وہ ایک بالکل مختلف شخص کی حیثیت سے باہر آئے۔ رہائی کے بعد انہوں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ (اس جماعت کا سربراہ خود کو نبی اور گوروں کو شیطانی نسل قرار دیتا ہے) میلکم نے تنظیم میں شمولیت کے بعد اس میں ایک نئی روح پھونک دی۔
میلکم لٹل نے اپنا نام بدل کر میلکم ایکس رکھ لیا۔ وہ عہد غلامی کی ہر علامت کو اپنی زندگی سے نکال دینا چاہتے تھے۔ میلکم ایکس کا جوشیلا انداز خطابت، مدلّل گفتگو اور کرشماتی شخصیت نے نہ صرف انہیں بلکہ خود نیشن آف اسلام کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ خود نیشن آف اسلام کے رہنما ان سے خائف رہنے لگے۔
اسی دوران ان کی کچھ اسلامی رہنماؤں و اسکالرز سے ملاقاتیں ہوئیں، جس سے میلکم ایکس کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ اسلام کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے لیے انہیں حج کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ وہ براستہ قاہرہ جدہ سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے۔ جہاں اخوت کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ انہیں گورے، کالے اور پیلے کی کوئی تفریق نظر نہ آئی۔
میلکم لٹل سے میلکم ایکس کا نام اختیار کرنے والے مکہ سے مالک الشباز بن کر واپس امریکہ پہنچے۔ جہاں انہوں نے اسلام کی پرجوش تبلغ شروع کر دی۔ اسلام کا آفاقی پیغام مالک الشباز کی مدلل اور پرجوش زبان سے نکلا، تو امریکی عوام کے دلوں میں گھر کرنے لگا۔ امریکیوں میں اسلام کی تیزی سے اشاعت کیسے قابل قبول ہو سکتی تھی۔ 21 فروری 1965ء کو وہ نیویارک کے علاقے ہارلم کے قریب واقع ایک آڈیٹوریم میں سیکڑوں افراد کے مجمعے سے خطاب کے لیے اٹھے تو پہلی رو میں بیٹھے تین افراد نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ انہیں فوری طور پر ایک قریبی اسپتال لے جایا گیا لیکن کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر محض 39 سال تھی۔
ان کے قتل میں امریکی حکومت کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی، لیکن نصف صدی بعد بھی اس کی تحقیقات نہیں ہو سکیں۔
٭٭٭٭٭







[ad_2]

Source link

بلاگ آرکائیو