16 اگست، 2014

ساون آیا تم نہیں آئے.......


بہار کے موسم کو پھولوں کا موسم بھی کہا جاتا ہے ۔ فیض احمد فیض کا کیا خوب کہنا ہے کہ
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کا روبار چلے
پھولوں کے علاوہ بہار کے موسم کی بڑی خاصیت اس کا معتدل ہونا ہے نہ گرمی نہ سردی، کیا سہانا موسم ہوتا ہے ۔پر امن وقتوں میں زبیدہ خانم کی آواز میں فلم سات لاکھ کا یہ گیت بڑا مقبول ہوتا تھا۔ آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے
تو چھٹی لے کے آ جا بالما
بہار کے حوالے سے خلیل احمد مرحوم کی بنائی ہوئی دلکش دھن میں فلم پاکیزہ کاملکہ ترنم نور جہاں کا بھی بڑا خوبصورت گیت ہے۔
تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آؤں گا
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے
اہل ذوق ، اہل دل، ادیبوں اورشاعروں کی طرح بہار کا موسم ہمیں بھی بڑا اچھا لگتا ہے لیکن اس کی وجہ بڑی غیر ادبی اور غیر رومانی ہے اور وہ یہ کہ ان دو مہینوں میں گھر کے بل بڑے کنٹرول میں رہتے ہیں ۔ اے سی بند ہونے کی وجہ سے بجلی کا بل کم ہو جاتا ہے اور سردی نہ ہونے کی وجہ سے ہیٹربھی بند ہوتے ہیں سو گیس کا بل بھی بڑا مناسب آتا ہے ۔
بہار کے علاوہ دوسرا موسم جو شاعر اور اہل قلم حضرات کو دیوانہ بناتا ہے وہ ’’ساون‘‘ کا موسم ہے ۔بڑی خوبصورت شاعری اور گیت ساون کے حوالے سے اردو ادب کا اثاثہ ہے ۔ استاد برکت علی خان مرحوم کا بڑا ہی خوبصورت ماہیے کے انداز میں گایا گیت آج بھی بچے کچھے بزرگوں کو یاد ہوگا۔
باغوں میں پڑے جھولے ، تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے
بزرگوں کو زہرہ بائی امبالے والی کی آواز میں فلم ’’رتن‘‘کا یہ گیت بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ رم جھم برسے بادل وا مست بہاریں آئیں، پیا گھر آجا
ساون کے حوالے سے ہی خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں نورجہاں اور منیر حسین کی آوازوں میں فلم ’’کوئل‘‘ کا یہ گیت بھی بڑا دلکش اور نہ بھولنے والا ہے ۔
رم جھم رم جھم پڑے پھوار، تیرا میرا نت کا پیار
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب میں کافی مواد اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ کچھ حضرات کو ان رنگیلے اور سہانے موسموں میں کچھ مسئلہ ہو جاتا ہے ۔ ظہیر کاشمیری کا فرمانا ہے ۔
موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
اسی طرح ایوب رومانی کا فرمانا ہے ، شوکت علی کی آواز میں آپ نے بھی سناہوگا۔
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
بزم گل چھوڑ گیا دل میرا پاگل نکلا
ہم اکثر سوچتے تھے کہ ان حضرات کو کونسا نفسیاتی عارضہ لاحق ہے جو ان موسموں میں بھی یہ پاگل ہو جاتے ہیں ، گریباں چاک اور گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ مسئلہ اب حل ہوا ہے جب اس ’’ساون وائرس‘‘نے ہم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ بہار کا موسم تو ہمیں کچھ نہیں کہتا لیکن ساون کے آتے ہی جب لوگ گاتے ہیں کہ ’’آیا ساون جھوم کے‘‘ تو بجائے جھومنے کے ہمارا دماغ گھوم جاتا ہے ۔ لوگ خوشی سے کہتے ہیں کہ ’’ساون آیا‘‘ اور ہم ہسٹریائی انداز سے خوف زدہ ہوکر چلاتے ہیں کہ ’’ساون آیا‘‘ گویا ساون نہ ہوا کوئی جن بھوت ہوا۔ ایسا پہلے نہیں تھا بلکہ دوسروں کی طرح ہم نے بھی ہمیشہ ساون کا انتظار کیاہے ، اس موسم کو ’’انجوائے‘‘ کیا ہے ، بارش کے پانی میں ’’کاغذ کی کشتی‘‘ چلائی ہے ۔لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب بلدیہ والے فرض شناس تھے ۔ بلدیہ کا خاکروب صبح صبح آکر نالیوں سے پہلے راب نکالتا تھااسکے بعد ہر نالی کی اچھی طرح صفائی کرتا تھا اور بلدیہ کا ماشکی بھی اسکے ساتھ ساتھ چلتا  ہواپانی بہاتا جاتا تھا، ان کے سر پر
ایک سپروائزر ان دونوں کی نگرانی کرتا اور ساتھ ساتھ ہدایات دیتا جاتا۔ پھر قوم و ملک کی بدقسمتی کہ ان اداروں کو نظر لگ گئی اور یہ نظر اب تک لگی ہوئی ہے ۔اب ذرا سی بارش ہوتی ہے تو سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہوجاتا ہے ۔ گٹروں، نالیوں اور سیورج کا گندا پانی بھی بارش کے پانی کے ساتھ ایکا کرکے گھروں میں داخل ہوجاتاہے ۔ ہمارا تعلق سیالکوٹ کے اندرون شہری علاقے سے ہے ۔محلہ مرے کالج روڈ ہے ۔اتنی بڑی سڑک پربلدیہ کی طرف سے صرف ایک کوڑا دان ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے 75%ًٓ آبادی اس کو استعمال نہیں کرتی ۔ بدقسمتی سے لوگ جس گلی کی نکڑ پر کوڑا پھینکتے ہیں، اسی گلی میں ہماری رہائش ہے سو ہم کسی دوست کو اپنا پتہ یہ نہیں بتاسکتے کہ پھولوں کی کیاریوں اور خوشبو کے ساتھ ساتھ چلے آؤ بلکہ آسان پتہ بتاتے ہیں کہ مسجد ابوحنیفہؒ کے ساتھ گلی کی نکڑپر پڑے کوڑے کی بدبو کے ساتھ چلے آؤ ۔ کوئی تین سال پہلے بلدیہ نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اس کالج روڈ کو کارپٹ کرکے بہترین فٹ پاتھ بنائے تھے اور بڑی نالی کو ڈھک دیا گیا تھا مگر آپ حیران ہوں گے کہ جہاں کوڑا پھینکا جاتا ہے صرف اتنی جگہ پر بڑی نالی ننگی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے آدھا کوڑا اس بڑی نالی میں گر جاتا ہے۔ کوڑا اٹھانے والا عملہ آتا ہے تو سڑک پر پڑا کوڑا تو اٹھا لیتا ہے لیکن نالی میں گرا ہوا کوڑا نہیں نکالتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر دوسرے روز نالی کہیں نہ کہیں بند ہو جاتی ہے اور گٹر ابلنے لگتے ہیں ۔ آپ مزید حیران ہونگے کہ لاکھوں روپے سے بنے فٹ پاتھ جگہ جگہ سے توڑ کر وقتی طور پرپانی کی عارضی رکاوٹ کو دور کردیا جاتا ہے لیکن جہاں خرابی کی جڑ ہے، جہاں ننگی نالی بند کرکے پکا کوڑا دان بننا چاہئے، اسکو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔ ساون کے حوالے اخلاق احمد مرحو م کا ایک گیت یاد آرہا ہے۔
ساون آئے ساون جائے تم کو پکاریں گیت ہمارے
’’چاہت‘‘ فلم میں یہ گانا رحمان مرحوم نے شبنم کے لئے گایا تھا مگر ہم یہ گانا بلدیہ سیالکوٹ کے ارباب اختیار پر فٹ کرتے ہیں کہ کتنے ہی ساون بیت گئے ہیں مگر آپ کی بے حسی کا یہی عالم ہے ۔
آنجہانی جگجیت سنگھ کا خوبصورت گیت آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو، بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
ہمارے پاس دولت ہے نہ شہرت۔ جوانی بھی ایک حکیم کا پتہ بتا کر رخصت ہوچکی گویا ہم کو بلدیہ کو دینے کے لئے کچھ نہیں پھر بھی عاجزانہ درخواست کرنے میں کیا حرج ہے، شائید ہمارا کالم پڑھ کر ڈی سی او سیالکوٹ یا ایڈمنسٹریٹر کارپوریشن اس خرابی کا نوٹس لے لیں ۔ حالت یہ ہے کہ گلی کا خاکروب بھی باقاعدہ نہیں آتا بلکہ ’’بے قاعدہ ‘‘ آتا ہے وہ بھی جب اس کو لال نوٹوں کی جھلک دکھائی جائے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ نالیاں بنداور پانی کھڑا۔ فائنل نتیجہ یہ ہے کہ مچھروں کی بہتات ۔ پنجاب حکومت کروڑوں خرچ کرکے ڈینگی کا خاتمہ کرنے کے لئے کوشاں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’یہ خرابی سب پر بھاری‘‘ جب تک ایسی خرابیاں جڑ سے ٹھیک نہ ہوں گی ، ڈینگی کا بھی خاتمہ نہیں ہوگا۔