16 اگست، 2014

سنتوں سے انحراف کرنے والے کا رسول صلی الله علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں

مولانا سید محمد رابع ندوی

الحمدلله رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید المرسلین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، ومن تبعھم باحسان، ودعا بدعوتھم الی یوم الدین، اما بعد!

ہمارے حضورحضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے ہر کام میں اعتدال کا طریقہ اختیار کرنے کو پسند فرمایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”خیر الأمور اوسطھا“ یعنی معاملات میں بہتر وہ ہیں جو درمیانی ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر از خود اپنے عمل سے بتایا اور توجہ دلائی ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے تین صحابی بڑے ایمانی جذبے کے ساتھ آپ کے پاس آئے ،ایک نے کہا: رات رات بھرمیں عبادت کیا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں روزہ رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں کبھی شادی نہ کروں گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں تم میں سب سے زیادہ متقی اور الله سے ڈرنے والا ہوں اور رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور روزے رکھتا ہوں اور روزے سے خالی دن بھی چھوڑتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں، جو میرے طریقہ پر نہیں، وہ ہم میں سے نہیں ۔ یہ تھی وہ اعتدال اور درمیان کی راہ جس پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے امت کو ڈالا تھا اور اس کی تربیت بھی پوری طرح کر دی تھی کہ اپنی دنیاوی زندگی کی فکر حسب ضرورت رکھو اور اپنے دین کے حق کو پوری طرح ادا کرو ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”الدین یسر“ کہ مذہب آسان ہے، الله پاک نے امت محمدیہ کے لیے مذہب کو آسان بنا دیاہے، اس پر پوری طرح عمل کرنا آسان ہے، دین پر پورا عمل کرنے سے برکت ہوتی ہے اور الله کی نصرت کے وعدے پورے ہوتے ہیں، امت محمدیہ کے لیے اس میں آسانی ہے اور یہی اس کے لیے فلاح وکامرانی کی راہ ہے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ سجدوں سے یعنی پروردگار کی عبادت کرنے سے میری مدد کرو۔ یعنی میری دعا کو تقویت پہنچاؤ ، ایک حدیث میں فرمایا: ایسا بھی شخص لایا جائے گا جس نے خوب عبادت کی ہو گی، لیکن لوگوں کی دل آزاری کی ہو گی، کسی کو مارا ہو گا، کسی پر الزام لگایا ہو گا ، جب اس کا حساب ہو گا تو جس کی اس نے دل آزاری کی ہو گی ، اس کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، حتی کہ اس کا دامن اس کی نیکیوں سے خالی ہو جائے گا اوراس کو آگ میں جانا پڑے گا۔ ہم کو حضور صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت کا ثبوت دینا چاہیے او راتباع سنت کو اختیار کرنا چاہیے۔

اتباع سنت کا معیار وتقاضا
اتباع سنت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خوشی کا کام کیا جائے او رناخوشی سے بچا جائے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کی جائے اورزندگیوں کو اس پیمانے میں ڈھالا جائے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے شب وروز کیحالات سے او رتکلیف وراحت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے طرز وطریقہ سے ، عبادات ومعاملات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت سے بنتا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت کا یہی معیار ہے کہ دیکھا جائے کہ ہماری زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ وسنت کی پیروی کہاں تک ہے؟ دعویٰ کرنا آسان ہے ، محبت وتعلق کا لفظی اور دکھاوے کا اظہار آسان ہے ، آدمی جس طرح اپنی بہت سی خواہشوں پر پیسے صرف کر دیتا ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے دعوے او ردکھاوے پر بھی صرف کر دیتا ہے، روشنی، جلسہ، جلوس بھی آسان کام ہیں ، اس میں دل بھی لگتا ہے اور مزہ آتا ہے، لیکن جس میں جی لگتا ہو اور معلوم ہو جائے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ طریقہ نہیں پھر اس کو آدمی چھوڑ دے او راس کے مزے سے اپنے کو بچائے، یہی وہ مشکل کام ہے جو ہمار ی زندگی سے نکلتا جارہا ہے او رجو سنت ہے جس سے الله کے رسول خوش ہوں گے، اسی کو اختیار کرے، خواہ اس میں کوئی مزہ نہ ہو ، کوئی دکھاوانہ ہو۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کی خوشی اور خوش نودی آپ صلی الله علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرکے دکھانے سے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی سے ہو گی ، ہم دیکھیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خوشی کے موقعوں پر کیا کرتے تھے ، رنج کے موقعوں پر کیا کرتے تھے ، اپنے پروردگار کی عبادت او راس کے احکام کی بجا آوری کیسے کرتے تھے، پھر بیویوں سے کیسے پیش آتے تھے ،بچوں کے ساتھ کیسا سلوک تھا، ساتھیوں اور رفقاء کا کیسا خیال کرتے تھے ، پڑوسیوں کے ساتھ کیا معاملہ تھا، کیسی رحم دلی تھی، کیسا اخلاق تھا؟ قرآن مجید میں فرماگیا ہے ﴿ لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة لمن کان یرجو الله والیوم الآخر وذکر الله کثیراً﴾․

یعنی” تمہارے لیے الله کے رسول میں اچھا نمونہ ہے، یہ اس شخص کے لیے جو الله سے امید قائم کرتا ہے اور آخرت میں امید کرتا ہے اور اس نے الله کو بہت یاد کیا ہے ۔“

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت واطاعت او ران کے اعمال واخلاق کو اپنی رندگی کے لیے نمونہ بنانا ہی الله پاک وبرتر سے محبت اور مقبولیت کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے، قرآن مجید میں فرمایا گیا:﴿قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله﴾․ اس لیے ہم مسلمانوں کو اپنی اپنی زندگی کا جائز ہ لیتے رہنا چاہے کہ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے واقعی محبت کرتے ہیں یا ہم کو شیطان دھوکا دے رہا ہے او رہم سب انسانوں کو ہمارے پروردگار نے حکم دیا کہ اس عظیم اورر حمة للعالمین رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کریں، اس میں ہمار ی کامیابی اور نجات ہے ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک جامع ترین نصیحت
”عن ابی نجیح العرباض بن ساریة رضی الله عنہ قال: وعظنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم موعظةً بلیغةً، جلت منھا القلوب وذرفت منھا العیون، فقلنا یا رسول الله، کأنھا موعظة مودِّع فأوصنا․ قال: اوصیکم بتقوی الله، والسمع، والطةعة، وان تأمَّر علیکم عبد حبشی، وانہ من یعش منکم فسیریٰ اختلافاً کثیراً، فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور، فان کل بدعة ضلالة․“ (رواہ ابوداؤد، والترمذی)

ترجمہ:” حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں نہایت موثر وعظ ارشاد فرمایا کہ ہمارے دل ڈر گئے او رہماری آنکھیں اشکبار ہو گئیں ، تو ہم نے عرض کیا یا رسول الله ! یہ تو گویا آخری نصیحت معلوم ہوتی ہے ، لہٰذا ہمیں کچھ اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں الله سے ڈرنے کی او رسمع وطاعت ( یعنی امیر کی بات سننے اور اس پر عمل کرنے) کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام مقرر کیا جائے۔ (یاد رکھو !) تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، ایسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑے رہنا، ان کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہنا اور دین میں نئے نئے کام( بدعات) ایجاد کرنے سے بچنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے او رہر بدعت گمراہی ہے۔“

اس حدیث کو دیکھیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کتنا مؤثر وعظ فرمایا ہے کہ سب کی آنکھیں بہنے لگیں اور سب لرز اٹھے، روایت میں آتا ہے ”وجلت منھا القلوب وذرفت منھا العیون“، وجل“ اسی خوف کو کہتے ہیں جو دل میں لرزہ پیدا کر دے ، خوف کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ، عربی میں اس کے مختلف الفاظ ہیں ” خوف“ کا لفظ آتا ہے ، ” حذر“ اور ” ذعر“ کا بھی لفظ آتا ہے ”وجل“ اور ”خشیت“ کا بھی لفظ آتا ہے، ان سب میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے اور ان کے مواقع استعمال بھی الگ الگ ہیں کہ کس کیفیت میں کون سا لفظ زیادہ بہتر ہے، عام خوف کو خوف کہتے ہیں،لیکن جب کسی چیز کو دیکھ کر اچانک خوف آجائے اس کو ”ذعر“ کہتے ہیں، خشیت اس خوف کو کہتے ہیں جو دل میں احترام کے جذبہ کے ساتھ ہو ، وجل اس خوف کو کہتے ہیں کہ جس میں آدمی لرزجائے، توصحابہ کرام کا ایمان اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم سے جنت او رجہنم کی باتیں سنتے تھے تو لرز جاتے تھے، ان کا ایمان اتنا قوی تھا کہ جنت کا ذکر ہوتا تھا تو گویا جنت ان کو نظر آرہی ہے اور اگر دوزخ کا ذکر ہوتا تو گویا دوزخ نظر آرہی ہے، آگ لپکتی ہوئی نظر آرہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ آگ ہماری طرف بڑھ رہی ہے اور کہیں ہمیں چھونہ لے ، یہ کیفیت صحابہ کرام کی ہوتی تھی، اس کیفیت کے بعد کیا دل ان کا لرز نہیں جائے گا، آپ سو رہے ہوں اور آگ لگ گئی اور اچانک آپ نے دیکھا کہ وہ آپ کی طرف بڑھ رہی ہے اور بھاگنے کا کوئی راستہ نہ ہو تو آپ کا دل لرز جائے گا، معلوم ہو گا کہ موت سامنے ہے۔

یہ کیفیت صحابہ کی ہو جاتی تھی، اس لیے کہ ان کا ایمان اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جو چیزیں ہم پڑھتے ہیں اور اس کو علمی طور پر مان لیتے ہیں، دل کی گہرائیوں میں نہیں اترتا، لیکن ان کو اس پراتنا یقین ہوتاتھا کہ جیسے وہ آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں، اس لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے جو بات ارشاد فرمائی وہ مؤثر تھی، سننے والے آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ تھے، ایسے ایمان والے تھے کہ سن کر بے حد متاثر ہوئے اور ڈر گئے کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور لوگوں نے کہا کہ یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم)! آپ نے ایسا وعظ فرمایا جیسے کہ آپ آخری وعظ فرمارہے ہوں اور اتمام حجت کر رہے ہوں اور جس کے بعد کچھ کہنا نہیں کہ یہ آخری بات ہے، جو کہہ رہے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کچھ نصیحت کیجیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اوصیکم بتقویٰ الله والسمع والطاعة، وان تأمرعلیکم عبد حبشی…“ یعنی میں تم کو نصیحت کرتا ہوں، ہدایت دیتا ہوں کہ دل میں خدا کا ڈر پیدا کرو اور بات سنا کرو اور مانا کرو، جس طرح وہ شخص کرتا ہے جو کسی بااختیار آقا کا غلام ہو۔

یہ ایسی حدیث ہے کہ خاص طور پر اس زمانہ کے لیے اس میں بہت ہی روشنی ہے ، یہ زمانہ ایسا ہے کہ خود غرضی اور آپس میں تعلقات کی خرابی اور ایک دوسرے سے کشکمش اور لڑائی اور ایک دوسرے کی مخالفت مسلمانوں میں نہایت عام ہو گئی ہے ، لیڈر لیڈر سے لڑ رہے ہیں ، واعظین وعلماء تک آپس میں لڑ رہے ہیں ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے وہ اسی لیے فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله پاک کی طرف سے یہ بتلا دیا گیا تھا کہ اس امت پر ایسے دور آئیں گے اور یہ بات اسی زمانہ میں نہیں، بلکہ اس سے پہلے سے ہوتی رہی ہے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کو الله کی طرف سے یہ بات بتلا دی گئی تھی کہ امت ان حالات سے گزرے گی، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے خبردار کیا کہ دیکھو! ایسے حالات پیش آسکتے ہیں، اس میں تم کو کیا کرنا چاہیے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله سے ڈرو اور جو شخص خدا سے ڈرے گا جس کو واقعی ڈرنا کہتے ہیں، جیسا کہ صحابہ کرام ڈرتے تھے تو وہ اس طرح کی چیزوں میں نہیں پڑے گا، مثال کے طور پر آگ سے آپ ڈر رہے ہیں، خدانخواستہ آگ لگ گئی ، آپ آگ کے سامنے کھڑے ہیں، اس وقت وہاں آپ کا مخالف بھی پہنچ گیا ہے تو کیا ایسے موقع پر آپ اپنے مخالف سے دشمنی کریں گے ؟ نہیں کریں گے، بلکہ دونوں مل کر بچنے کی کوشش کریں گے اور اس وقت دونوں دوست ہو جائیں گے ، دونوں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے کہ بھائی! آگ لگ رہی ہے ، اس کو بجھانے کی کوشش کریں گے، اس وقت ہم اپنے اختلاف نہیں دیکھیں گے، اس وقت ہم دونوں مل جائیں گے۔

صحیح مومن الله کے غضب وناراضی سے اسی طرح ڈرتا ہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اس کی پکڑ سے ڈرتا ہے او رالله سے اس طرح ڈرنے کا سبب یہ بنتا ہے کہ الله نے کہا کہ قیامت کے دن ہم تمہارا حساب لیں گے اور تمہارے اعمال کے مطابق جزا وسزا دیں گے، اگر برے اعمال ہیں تو جہنم او راگر اچھے اعمال ہیں توجنت دیں گے، اس میں پورا پورا معاملہ ہو گا، وہاں رعایت نہیں ، ہاں! اگر بعد میں الله رحم فرما دے تو اس کا فضل ہے، کوئی اسے روک نہیں سکتا توجب ہم کو اس پر واقعتاً یقین ہو گا اورخدا سے واقعتاً ڈر ہو گا تو ہمیں بے حد فکر اس کی ہو گی کہ الله پاک ہم سے ناراض نہ ہوں ، جب الله پاک کی رضا مندی یا ناراضگی کی فکر ہو گی تو یہ سب چیزیں چھوٹ جائیں گی کہ فلاں نے ایسا کرد یا، فلاں نے ایسا کہا، مومن سوچتا ہے کہ فلاں نے ایسا ویسا کر دیا تو کتنا نقصان ہو گا، اس سے زیادہ نقصان تو اس میں ہے کہ آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں جہنم میں پہنچ جائے ، ہماری دنیا کتنی ہے اور کیا اہمیت رکھتی ہے؟ وہ اگر برباد ہو جائے تو کتنا نقصان ہے؟ الله سے ڈرنے والا یہ دیکھتا ہے ہماری دنیا برباد ہو جائے، لیکن ہماری آخرت سنور جائے ، جہاں ابدالآباد کی زندگی گزارنی ہے، صحابہ کرام کے دل کی کیفیت یہی بن گئی تھی، جب ان کو جہنم سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ واقعی ڈرتے تھے اور خوف زدہ ہو جاتے تھے اور آنسو جاری ہو جاتے تھے اور ان باتوں میں پڑنے یاکرنے سے دور بھاگتے تھے جن کے کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں تلقین آئی ہے کہ الله سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ فرمایا: ﴿اتقوا لله حق تقاتہ﴾ او رایسا ڈرواقعی پیدا ہوتا ہے ، ہمارے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کے بعد ارشاد فرمایا کہ امیر کی بات سنو اور مانو اور جب مومن حضور صلی الله علیہ وسلم کی بات کو خوب مانتا ہو گا تو یہ حکم بھی مانے گا اور سب لوگ امیر کی باتیں ماننے لگیں تو جھگڑا ختم ہو جائے گا اور غلط کام بھی ختم ہو جائے گا فرمایا:”انہ من یعش منکم فسیریٰ اختلافاً کثیراً“ کہ بعد میں جو زندہ رہیں گے جب کہ ایمان کی کمزوری آجانے پر اختلافات اثر انداز ہونے لگیں گے تو وہ لوگ بڑا اختلاف دیکھیں گے، ایک دوسرے سے مخالفت اور نفرت رکھنے والے لوگ ہونے لگیں گے، ایسے وقت میں تم کو وصیت کرتا ہوں ”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین“ کہ میرا طریقہ اور خلفائے راشدین کا طریقہ اختیار کر و اور اس پر نظر رکھو کہ میں نے کیا کیا اور ایسے موقع پر صحابہ  نے کیا کیا ، خاص طور پر خلفائے راشدین کو دیکھو۔

سنت کے کیا معنی ہیں؟
سنت کے معنی طریقہ عمل کے ہیں اور ”السنة“ سے مراد سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہے اور سنت کی اضافت جس کی طرف کی جائے اس کا طریقہ ہو جاتا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میری سنت پر عمل اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو یعنی میرے طریقہ کو دیکھو اور اس کو اختیار کرو اور صحابہ کے طریقہ کو دیکھو اور اس کو اختیار کرو، اگر میرے طریقہ پر عمل کرو گے اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو سامنے رکھو گے تو آپسی اختلافات وکشمکش اور مصیبت وآفت سے بچ جاؤگے اور فرمایا کہ ”عضوا علیھا بالنواجد“ یعنی اس کو دانتوں سے پکڑو۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری سنت اور صحابہ کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو، اگر ایسا کروگے تو خطرہ سے بچ جاؤ گے۔”وایاکم ومحدثات الامور“ یعنی دین کے معاملہ میں نئی نئی باتیں ایجاد ہوں تو ان سے بچو ”وإیاکم ومحدثات الامور“ اپنے کو بچاؤ او ربچو، یعنی لوگ اپنے فائدوں کی غرض سے محض اندازوں سے دین کے اندر نئی باتیں کرتے رہتے ہیں ان سے بچو اور یہ دین کے معاملہ میں ہے ، دنیا کے معاملہ میں نہیں ، دنیا کے معاملہ میں آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق کام کرے، لیکن دین کے معاملہ میں جہاں الله تعالیٰ کی رضا کا معاملہ ہوتا ہے اس میں اگر کوئی نئی بات ایجاد کی جاتی ہے جو حضور صلی الله علیہ وسلم نینہیں بتائی تو وہ ”محدث“ ہے، یعنی نئی کر دی گئی ہے ، نئے نئے اختیار کردہ معاملات سے بچو، جن کو لوگ دین بناتے ہیں حالاں کہ وہ دین نہیں ہے ، جس کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتایا او رکہا یا کیا ہے یا صحابہ کرام نے کہا اور کیا ہے، اس کے علاوہ جو نئی چیز اختیار کی جائے گی اور وہ دین نہیں بلکہ بدعت ہے یا بدعت کامطلب دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور دین کے اندر نئی بات کا ایجاد کرنا کسی کا حق نہیں، کیوں کہ دین مکمل کر دیا گیا او راعلان کر دیا گیا ﴿الیوم اکملت لکم دینکم﴾ میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، دین مکمل ہو گیا، اب کوئی نئی بات دین میں داخل نہیں ہو گی۔

کل بدعة ضلالة
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر نئی بات اور نئی ایجاد یعنی جو بات حضور صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں سے الگ ہو گی ، گمراہی ہو گی، ہدایت وہ ہے جو الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ہم کو ملی ،گمراہی وہ ہے جو دین میں نئی بات اختیار کی گئی ہے ، جس کی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے یہاں کوئی سند نہیں اور راہ نمائی نہیں ملتی وہ بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت وگمراہی ہے۔

ہمیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنا ہے، تاکہ آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے اگر ملاقات مقدر ہو تو آپ یہ نہ فرمائیں کہ تم نے تو ہم کو خوش نہیں کیا، صرف اپنے کو خوش کرتے رہے اور شان وشکوہ سے اپنا دل بہلاتے رہے اور ہماری سنتیں مٹتی رہیں ، ہمیں سیرت پاک کے جلسوں میں اتباع سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ضرور سامنے لانا چاہیے ، الله پاک ہم سب کو اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وصلی الله علی سیدنا ومولانا محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین