دہشت گردی اور اسلام دو ایسے لفظ ہیں جن کا آپس میں دور کا بھی کوئی تعلق
نہ ہونے کے باوجود کئی دہائیوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں اور اس ذیل میں اسلام
پر میڈیا کی بڑی مہربانیاں رہی ہیں۔ میڈیا ہمیشہ سے یہ محسوس کرتا رہا ہے
کہ اسلام اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اب اس غلط فہمی کے لئے ہم
اپنی کوتاہیوں کو مورد الزام قرار دیں یا پھر میڈیا کے افراد کی تن آسانی
اور ان کے اندر تفتیش و تحقیق کی مجرمانہ حد تک کمی کو، یا پھر ہم یہ مان
لیں کہ میڈیا خاص نقطہ نظر کے ساتھ تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے ان الفاظ کو
باہم جوڑ کر پیش کررہا ہے اور اس کے پس پردہ جو فکر کام کررہی ہے وہ یہ ہے
کہ دنیا کو یہ باور کرادیا جائے کہ اسلام امن وآشتی کا مذہب نہیں بلکہ دہشت
گردانہ سرگرمیوں کا مصدر و منبع ہے اور اسلامی تعلیمات کے اندر ہی کچھ
ایسی باتیں ہیں جو اس کے پیروکاروں کو دہشت گردانہ اعمال کی انجام دہی پر
اکساتی ہیں۔ حقیقت حال جو بھی ہو لیکن اتنا تو مسلم ہے کہ اس حوالے سے
مختلف تحریکوں، تنظیموں اور جہادی آئوٹ فٹ کی سرگرمیاں اخباروں کی شہ سرخی
بنتی رہی ہیں۔ انہی تنظیموں میں ایک مشہور و معروف نام اسٹوڈنٹ اسلامک
موومنٹ آف انڈیا (SIMI) کا بھی ہے۔
2001ء میں پابندی کے بعد یہ تنظیم منظر نامے سے بالکل ہی غائب ہوگئی تھی اور پھر گاہے بگاہے اس کی سرگرمیوں کے تعلق سے بعض معمولی قسم کی خبریں آتی رہیں۔ لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب میں نے ملاحظہ کیا کہ انگریزی میگزین فرنٹ لائن کے 21 دسمبر 2007ء کیشمارے میں کور اسٹوری کا کالم سیمی (SIMI) کی نشوونما اور ہندوستان میں اسلام پسندوں کی بنیاد پرستی کے ارتقائی جائزہ کی نذر ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ میگزین ’’کور اسٹوری‘‘ کے تحت نہایت اہم موضوعات کا مختلف زاویوں سے جائزہ پیش کرتی ہے۔ بہرحال 16 صفحات پر مشتمل اس کالم میں تین مضامین شائع ہوئے ہیں۔ Terror Links (دہشت گرد کے رشتے) کے عنوان سے شائع مضمون میں مضمون نگار پروین سوامی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ 2001ء میں اگرچہ اس تنظیم پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن اب بھی یہ ہندوستان کے ریڈیکل اسلام پسندوں کے لئے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور اب تک ملنے والی شہادتوں سے یہی پتا چلا ہے کہ 23 نومبر 2007ء کو وارانسی، فیض آباد اور لکھنو میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں اور آندھرا پردیش، گجرات اور اتر پردیش میں ہوئے کم از کم ایک درجن بم دھماکوں میں اس کا ہاتھ ہے۔ تنظیم اسلام پسندوں کے تشدد کے لئے ایک بنیادی پلیٹ فارم کے طور پر معرض وجود میںآئی تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی تاریخ بم کے ساتھ اس کے لوافیر کا رازہنواز غیر واضح ہے۔
جنوبی ایشیا کی دوسری تنظیموں کی طرح یہ تنظیم بھی فکری طور پر ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی خوشہ چین ہے جنہوں نے 1941ء شریعت اسلامیہ پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کی غرض سے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی تھی۔ لیکن جماعت اسلامی گزرتے ایام کے ساتھ ایک ایسی ثقافتی تنظیم میں تحلیل ہوگئی جس کا مطمع نظر مسلمانوں کے مابین Neo Conservative اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ پورے ملک میں اس نے ایسے اسکولوں اور اسٹڈی سرکل کا جال بچھا رکھا ہے جس کا ہدف آزادی کے بعد کمیونزم اور سوشلزم کے مسلمانوں کے مابین بڑھتے اثرات پر بند باندھنا ہے۔ 1956ء میں اس کی ایک طلبہ ونگ SIO کے نام سے قائم ہوئی جس کا ہیڈ کوارٹر علی گڑھ تھا۔ لیکن چونکہ شمالی ہندوستان کے مسلمان فرقہ وارانہ فسادات کے ستائے ہوئے تھے اس لئے جماعت کے متشددانہ نظریات کو قبولیت عام کا درجہ نصیب نہیں ہوا اور منطقی نتیجے کے طور پر جماعت نے آہستہ آہستہ مودودی صاحب کے پرتشدد نقطہ نظر سے بریک اپ کرکے سیکولر ازم کو اپنی نئی معشوقہ بنالیا۔ جماعت اسلامی کے اصلاح پسند طبقے اور سخت گیر نظریہ کے حاملین کے مابین فکری ٹکرائو کے نتیجے میں اپریل 1977ء میں SIO کے ملبے پر سیمی کی داغ بیل پڑی اور پھر آندھرا پردیش، مغربی بنگال، بہار اور کیرالا کہ ان طلبہ تنظیموں سے رابطے قائم کئے گئے جو جماعت کے ہم نوا تھیں۔ اسی دوران دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں منظر عام پر آئیں لیکن اس کا دائرہ بہت محدود رہا جبکہ سیمی کا حلقہ اثر پورے ہندوستان میں وسیع ہوگیا۔ مغرب سے چلنے والا اسلام مخالف تندوتیز استعماری چھونکوں نے اسے اور مضبوط بنانے کا کام کیا۔ سویت یونین میں لڑنے والے امریکہ سے شہ یافتہ مجاہدین کی تنظیم نے حمایت کرنی شروع کردی اور کھلے بندوں یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام ہی کے دامن میں ساری دنیا کے مسائل کا حل ہے۔ ان حالات سے خوفزدہ ہوکر جماعت اسلامی قیادت نے اپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن اندرون خانہ دوستانہ تعلقات میں کوئی کمی نہ آئی۔ 1982ء کے بعد اس کے حامیوں کا حلقہ اور بھی وسیع ہوگیا۔ مغربی ایشیا کی مختلف تنظیموں مثلا کویت کی ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم یوتھ، سعودی عرب کی اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے داد وتحسین ملی اور ان ممالک سے بے اندازہ رقم کی آمدنی کے نتیجے میں اس نے انگریزی، اردو، ہندی میں ’’اسلامک موومنٹ‘‘ گجراتی میں ’’اقرائ‘‘ بنگالی میں روپن تار (Rupantar) تمل میں سیدی مالار (Seidi Malar) اور ملیالم زبان میں ویوکم (Vivekam) نامی میگزینیں نکالنی شروع کیں۔ سیمی نے تحریک طلبہ عربیہ کے نام سے مدارس کے طلبہ کی ایک خاص ونگ اور شاہین فورس کے نام سے 7 سال سے لے کر 11 سال کی عمر کے لڑکوں کی بھی ایک ونگ قائم کی۔
مڈل کلاس کے مسلمانوں کے درمیان اس تنظیم کی مقبولیت کی وجہ یہ رہی کہ مسلمانوں کے بچے ان کے ہندو بھائیوں کی ہی طرح الکحل، ڈرگ اور جرائم کے عادی ہوچکے تھے۔ اسلامی رجحان کی آمد کے نتیجے میں یہ بچے بری عادتوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس لئے تنظیم کو مسیحا کے طور پر دیکھا گیا۔ ایک دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ اس طبقے کے مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والی اقتصادی ترقی کے مواقع کے سلسلے میں ان کے ساتھ دھوکے کا کھیل کھیلا جارہا ہے لہذا ضروری ہے کہ حقوق کی بازیابی کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور اسی تناظر میں سیمی کاایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مافیا سے جڑے بہت سے مسلم نوجوانوں نے سیمی میں شرکت اختیار کرلی جس سے تنظیم کا مالی فائدہ تو ہوا ہی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ وہ جرائم پیشہ افراد نہیں بلکہ مظلوم مسلم امت کا دفاع کرنے والے ہیں۔
1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سیمی نقطہ نظر (Viwe Point) میں زبردست تبدیلی آئی، بابری مسجد شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر سیمی سے مربوط لشکر طیبہ کے افراد جلیس انصاری، محمد اعظم غوری، عبدالکریم تونڈا نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملے انجام دیئے۔ یوں ہی سیمی کے ممبران کی ایک بڑی تعداد نے جیش محمد، حرکت الجہاد الاسلامی جیسی تنظیمیں جوائن کرلیں۔ 1996ء میں سیمی نے یہ بیان دیا کہ جب ڈیمو کریسی اور سیکولر ازم مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے تو اب واحد راستہ یہ ہے کہ خلافت کے قیام کے لئے کوششیں کی جائیں اور محمود غزنوی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ مسلسل دو قومی نظریہ کا نعرہ، 11 ستمبر کے بعد القاعدہ کی حمایت میں مظاہرے، بامیان میں بودھ کے مجسمہ کے انہدام پر جشن جیسے اعمال نے تو اس کی جدل و قتال پسندی کو اور برہنہ کردیا۔
گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے مقالہ نگا رنے لکھا ہے کہ سیاسی اسلام کے ارتقاء کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ حکومتیں مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلامی کمیونلزم کی جانب سے صرف نظر کرتی رہی ہیں اور کمیونسٹ لیڈر پرکاش کرت کے مطابق ہندو کمیونلزم ہندوستان میں اس لئے مضبوط ہوا ہے کہ سیکولر طبقہ نے مسلم فرقہ واریت کے لئے رسی ڈھیل کررکھی ہے لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسی سیاسی پالیسی کی جس کی کوکھ سے اس قسم کی تنظیمیں جنم لیتی ہیں، بیخ کنی کے لئے محکم اور مضبوط اسٹریجی وضع کی جائے اور یقینا یہ سیکولر ہندوستان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
نئے اڈوں کی تعمیر (Building New Bases) کے عنوان سے لکھی گئی دوسری تحریر دراصل چنئی سے ٹی ایس سوبرامنیم، رونتپورم سے آرکشنا کمار، کلکتہ سے سوہرید شنکر چتوپا دھیائے کا رپورٹوں کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے بالترتیب تامل ناڈو، کیرالا اور بنگال کے تعلق سے یہ ذہن دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ صوبے اسلامی دہشت گردی کی مکمل گرفت میں ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے چیرٹیبل ٹرسٹ فار مائی نارٹیز (C.T.M) نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ آف کیرالا (N.D.F.) کرناٹکا فورم آف ڈگنٹی (K.F.D.) جیسے خیراتی اداروں پر بھی ان کے جارحانہ تیور کی وجہ سے کڑی نظر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اداروں کے چیئرمین سیمی کے سابق علاقائی صدور اور اس کے ممبران سیمی کے سابق انصار ہیں۔
پولیس کا ماننا ہے کہ تامل ناڈو میں لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی تنظیموں کے سلیپر سیل کی موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تامل ناڈو میں سیمی اس وقت لوگوں کو نظر میں آئی جب 1999ء میں ان کے دعوتی آرگن (Seithi Madd) (خبرنامے) میں جموں و کشمیر کی سرگرمیوں کو کوسوو اور چیچنیا کی آزادی تحریک کے مماثل قرار دیاگیاتھا اور اسی بناء پر اس پر پابندی بھی عائد کردی گئی تھی۔ ان دنوں سیمی کے سابق ممبران لائبریریوں، خیراتی اداروں اوردعوتی کاموں میں مصروف ہیں۔ پولیس افسران کے مطابق سعودی عرب کی زیر حمایت مختلف غیر ملکی ایجنسیاں نہ صرف انتہاپسند تنظیموںکو بلکہ انفرادی طور پر بھی مالی تعاون فراہم کررہی ہیں۔مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگرچہ ذمہ داران کی جانب سے حالات کنٹرول میں ہونے کی بات کہی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے طاری اس سکون کو پرفریب سکون سے ہی تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
کیرالا کی صورتحال تو بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنتا جارہاہے۔ یہاں سے مالدیپ کی دہشت گرد تنظیموں کو اسلحے، آتش گیر مادے سپلائی کئے جارہے ہیں۔ ایم، ڈی، ایف، این ڈی ایف جیسی سیمی سے مربوط تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ان ساری تنظیموں کا پروفائل حالات کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ہندو توکے بالمقابل اسلامی آئیڈیالوجی کو نمایاں کرتے ہیں تو کبھی کیرالا کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل کو تو کبھی استعماریت مخالف، گلوبلائزیشن مخالف ایجنڈوں کو، سیمی کے دفتر پر پولیس کے چھاپے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حوالہ چینل کے ذریعہ مغربی ایشیا سے ہر ہفتہ ایک لاکھ سعودی ریال کی رقم تعاون فنڈ کے طور پر آتی ہے۔ مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہیں کہ اس وقت کیرالا میں سب سے بڑی دہشت گردی سرگرمی یہ جاری ہے کہ نوجوانوں اور کم سنوںکی برین واشنگ ہورہی ہے اور انہیں فکری طور پر یرغمال بنایا جارہا ہے۔
مغربی بنگال کو عام طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پاک مانا جاتا رہا ہے لیکن 21 نومبر کو کلکتہ میں ایک مظاہرے کے دوران جس تیزی سے حالات خراب ہوئے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی فکری بمباری شروع ہوچکی ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ سیمی سے مربوط کچھ بنگلہ دیئشی اور اترپردیش کی تشدد پسند تنظیموں نے حالات خراب کرنے میں رول ادا کیا ہے۔ اگست 2006ء اور اپریل2007ء کے درمیان لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جماعت المجاہدین، بنگلہ دیش کے افراد بنگال میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ جون 2007ء میں کلکتہ پولیس نے تین تشدد پسندوں کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ حزب الجہاد الاسلامی بنگلہ دیش سے ان کے رابطے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حالات یہاں بھی اچھے نہیں ہیں اور مغربی بنگال بھی اب دہشت گردوں کی آماج گاہ بنتا جارہا ہے۔
تیسرے مضمون Uneasy in Paradise (جنت میں اضطراب) میں مضمون نگار پوین سوامی نے ذکر کیا ہے کہ اسلام پسندوں کی سرگرمیاں ان آئس لینڈ میں بھی فروغ پارہی ہیں، جو ان سماجی، سیاسی تنائو سےآزاد ہیں جن کی بناء پر یہ سرگرمیاں فلورش ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ فصیحو اور واحد نامی مالدپی کے دو طالب علم جامعہ سلفیہ اسلامیہ فیصل آباد گئے جہاں کے پروڈکٹ میں مختلف القاعدہ اور لشکر طیبہ کے قائدین شامل ہیں، اسی مدرسہ سے ابراہیم شیخ نامی شخص نیو کنزرویٹو روایات سے آراستہ ہوکر مالدیپ لوٹا اور صدر ماموں عبدالقیوم کی حکومت کے خلاف جوکہ سنی شفاعی مسلک کی نمائندگی کرتی ہے، آواز اٹھائی۔ سلطان پارک بم دھماکہ ہو یا کوئی اور پردہشت حادثہ ان سب میں جماعت اہل حدیث کے افراد ملوث نظر آتے ہیں۔
Fiyes میگزین کے رپورٹر احمد عبداﷲ کے مطابق ابو عیسٰی اور اس جیسے لوگوں نے سونامی سے متاثرین کی مدد میں بھی بھید بھائو روا رکھا اور ان کی یہ کوشش رہی کہ ریلیف فنڈ ان لوگوں کو دیا جائے جو ان کی مرضی کے اسلام (سلفیت) کی پیروی کے لئے تیار ہون۔
مالدیپ حکومت نے سلفی حضرات کی سرگرمیوں سے پریشان ہوکر نا کے تمام نیٹ ورک پر پابندی عائد کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ جنت سے جہنم کا راستہ بہت دور نہیں ہے۔
کور اسٹوری کی تلخیص سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔
1: میڈیا سیاسی اسلام سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے
2: شعوری یا لاشعوری طور پر پوری دنیا میں سلفی اسلام کے ذریعہ اسلام کی رسوائی اور بدنامی ہورہی ہے اور اس پورے منظر نامے میں ابن تیمیہ کی حیثیت ایک ہیرو یا ولن کی ہے
3: سرکاری ذرائع سے فراہم سلفی حضرات (میری مراد ہندوستانی سیاق میں ہے جس میں دیوبندی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث حضرات سب کسی نہ کسی طرح ابن تیمیہ کے فکری خوشہ چین ہیں) کے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کی خبر پر اگر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کیا جاسکتا تو اس کی صحت کے امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
4: جماعت اسلامی ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے خدوخال علاقائی اعتبار سے متعین کرتی ہے۔ شمالی ہندوستان میں اگر وہ ایک طرف صوفیہ اور ان کے رسوم وروایات کے خلاف سخت گیر نظر آتی ہے تو دوسری طرف جنوبی ہندوستان میں وہ میوزک، فلم اور دوسری ثقافتی سوسائٹیوں کی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ شمالی ہندوستان میں ان کا ایجنڈا اگر عموما مذہبی ہوتا ہے تو جنوبی ہندوستان میں تعمیری، تربیتی، اور کمیونسٹ و استعماریت مخالف، اور یہ علاقائی اثر ہی کا نتیجہ ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب ’’پردہ‘‘ کی اشاعت اب تک ملیالم زبان میں نہیں ہوسکی ہے۔
کور اسٹوری سے متعلق میں چندسوالات قائم کرتے ہوئے گزر جانا چاہتا ہوں۔
1: کیوں میڈیا دہشت گردی کے ساتھ اسلام کے مقدس لفظ کو جوڑتا ہے جبکہ خود اس کا ہی مانناہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا؟
2: اور اگر وہ دہشت گردی کے ساتھ اسلام کا اضافہ امتیاز کے لئے کرتا ہے تو پھر وہ ہندو دہشت گردی یا یہودی دہشت گردی کی اصلاح استعمال کیوں نہیں کرتا؟
3: اسلامی دہشت گردی اور اسلام پسندی کے ارتقائی جائزے کے لئے میگزین کا اہم ترین کالم وقف کردیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں آر ایس ایس، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے نشوونما اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر سیمی جیسی تنظیمیں سیکولر ہندوستان کے لئے چیلنج ہیں تو کیا ہندو دہشت گرد تنظیمیں ہندوستان کے ماتھے کا جھومر ہیں؟ میرے خیال میں سیکولر ہندوستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج میڈیا کا دوہرا معیار ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سکے کے دونوں رخ دکھائے جائیں۔ درحقیقت اس سلسلے میں راز پنہاں یہ ہے کہ دہشت گردی کی تو صرف دبائی دی جارہی ہے۔ امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رامسی کلارک کے مطابق اصل نشانہ پر اسلام ہے۔ امریکہ اسلام سے خوفزدہ ہے کیونکہ اسلام نے افریقی، امریکی نسل کے لوگوں کو امن، سکون، عظمت کیوں وقار اور ایمان عطا کیا ہے جس کی وجہ امریکہ کا مادی مفاد دائو پر ہے (دیکھئے رامسی کلارک کا انٹرویو، دی ہندو، 17 دسمبر 2007ئ) اور اسی بناء پر اسلام اور دہشت گردی کی افواہ پھیلائی جارہی ہے۔
دوہرا رویہ
ایسا عموما دیکھا جاتا ہے کہ جب کبھی دہشت گردی کے حوالے سے ان جماعتوں کے ملوث ہونے کی خبر آتی ہے جو سواداعظم اہل سنت و جماعت اور مسلک صوفیہ سے الگ ہیں تو فورا ہی اس طرح کی خبروں کو بے بنیاد ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پھر تصوف و صوفیا کی دبائی دی جاتی ہے۔ ابھی کچھ دنوں قبل اجمیر بم دھماکے میں کچھ سلفی حضرات کے ملوث ہونے کی خبر آئی تو فورا ہی جماعت کی جانب سے تردیدی بیان شائع ہوا اور کہا گیا کہ حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمتہ اﷲ علیہ ہم سب کے آقا اور سرتاج ہیں، لیکن دوسری طرف جب کبھی موقع ملتا ہے تو یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ صوفیہ کی ان تمام جماعتوں نے عالم اسلام کو کھوکھلا کردیا ہے (دیکھئے اداریہ مجلہ الفرقان عربی جون ، جولائی 2006ئ) اور کبھی کویت سے شائع ہونے والے سلفی مجلہ مجتمع میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ صوفیا کے تمام گروہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں، بلکہ کچھ لوچگوں کی قبائے حیا یہ کہنے میں بھی تار تار نہیں ہوتی کہ خواجہ غریب نواز تو (معاذ اﷲ) ایک سنت تھے مسلمان نہیں، ایسے حضرات سے میں صرف ایک ہی گزارش کروں گا
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم ہوجا یا سراسر سنگ ہوجا
ویسے یہ حضرات اگر اپنے رول ماڈل شیخ ابن تیمیہ ہی کی بات پر کان دھرلیں تو معاملہ حل ہوجائے لیکن اصل پریشانی ان کے ساتھ یہ ہے کہ جب یہ پھنستے نظر آتے ہیں تو امام مالک سے استعانت کرتے ہوئے ان کا یہ قول کل یوخدمن قولہ ویردالا صاحب ہذا القبر (یعنی نبی کریمﷺ کے سوا ہر شخص کچھ بات مقبول اور کچھ مردو ہے) پیش کرکے راہ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں، شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’صوفیہ کبھی اپنے زمانے کے صدر یقین میں ہوتے ہیں اس بناء پر کہ ان میں بہتوں سے اجتہاد واقع ہوتا ہے اور اس سے نزاع و اختلاف واقع ہوتا ہے۔ لوگوں کا ان کے طریقہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت صوفیا اور تصوف کی مذمت کرتی ہے اور ایک جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ حضرات انبیاء علیہم الاسلام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل و کامل ہیں۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرات اﷲ کی اطاعت میں کوشش کرنے والے ہیں… تو ان میں اپنی کوشش کے لحاظ سے سبقت کرنے والے اور مقرب ہیں اور ان میں درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں جو اہل یمن سے ہیں اور دونوں قسموں میں کچھ لوگ کبھی اجتہاد کرتے ہیں اور ان سے کبھی غلطی ہوتی ہے‘‘
(التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ سید یوسف ہاشم رفاعی کویت، اردو ترجمہ، شاہ قادری سید مصطفی رفاعی جیلانی، ص 91، مطبع الاصلاح بنگلور، سن اشاعت 2004ئ)
صوفی اسلام سے میڈیا کی محبت کا راز
اس وقت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ صوفی اسلام کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں اور یہ آواز بلند کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ صوفی اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ آخر راز کی اہے؟ کیا واقعی میڈیا صوفی اسلام کے تعلق سے سنجیدہ ہے؟ اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا ہم یہ مان لیں کہ حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ اور شیخ ابن عربی علیہ الرحمہ کی شخصیتوں اور ان کی تحریروں سے مغربی دنیا کا شغف کسی نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے؟ میرا اس سلسلے میں اپنا خیال یہ ہے کہ اس بابت بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا خام خیالی کے مترادف ہے۔ ایسا یقینا ہے کہ ان حضرات کے پیغام محبت و انسانیت سے متاثر ہوکر لوگ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور ان کی تحریروں کی مانگ مغربی مارکیٹ میں بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن یہ بھی ناقابل انکار سچائی ہے کہ ان حضرات کی تحریروں کے جو ترجمے شائع ہوئے ہیں اور ان کی شخصیتوں پر جو کام ہوئے ہیں وہ اس نوعیت کے ہیں کہ ہم جماعت صوفیہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اسے مکمل طور پر اپنا نہیں سکتے۔ کیونکہ ان کی شخصیت کو وحدت ادیان کے نمائندے اور ان کے افکار کو اس نظریئے کے ناطق کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔ ان کے حوالے سے آئی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ایک سادہ لوح مسلمان اس نتیجے تک پہنچنے میں ذرا بھی نہیں جھجکھتا کہ واقعی سارے مذاہب کی روحانیت برحق ہے اور سب کا سرچشمہ دراصل ایک ہی ہے۔ درحقیقت پوری دنیا کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کے تعلق سے مسلمانوں کا جنون ختم یا کم ہو یا کم ا زکم وہ یہ باور کرلیں کہ دنیا کے سارے مذاہب سچے ہوسکتے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل پونے کے ایک اسکالر نے مشہور انگریزی اخبار The Hindu میں لکھا تھا ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنے مسلمان دوستوں کو یہ یقین کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں‘‘ اور اسی طرح کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان شعوری یا لاشعوری طور پر وحدت ادیان کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔
آخری بات
اب ایسی میں ہم اہل سنت و جماعت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہ تو اسلام کے نام پر سلفی نظریہ جہاد کی حمایت کریں اور نہ ہی صوفیہ اور تصوف کی وہ صورت قبول کریں جسے پیش کیا جارہا ہے بلکہ سواد اعظم سے منحرف جماعتوں کی فکری کمزوریوں کو اجاگر کرکے تصوف کے رخ روشن کو دیدار عام کے لئے وا کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مفاہیم و معانی واضح کئے جائیں اور بتایا جائے کہ جہاد (بمعنی قتال) ایک مقدس فریضہ ہے جو عدل و مساوات، امن وامان کی حکمرانی، ظلم و ستم کی بیخ کنی کے لئے بوقت ضرورت ہتھیار کے استعمال سے عبارت ہے اور اس قدر تشدد سے جو بظاہر تشدد ہے اور درحقیقت امن کا پیام بر، بوقت ضرورت گریز ایک مجرمانہ قدم ہی کہا جاسکتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ستیہ گرھ تحریک کی بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاحی خطبہ پیش کرنے کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ صاحب نے اس سوال کے جواب میں کہ اگرکوئی انسان کسی انسان کے خلاف سازشوں کا جال بنتا ہے اور وہ اسی انسان سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتا ہے تو یہ تشدد ہے یا عدم تشدد۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی تشدد ہی کے زمرے میں آئے گا لیکن اگر والدین یا استاذ اپنے بچوں کے ساتھ کسی حکمت کی وجہ سے تشدد کو بروئے کار لاتے ہیں تو اسے عدم تشدد ہی مانا جائے گا۔ کیونکہ اعتبار مآل اور نتیجے کا ہوتا ہے، گاندھیائی فلسفہ عدم تشدد کا مداح اگر تشدد اور عدم تشدد کی یہ تعبیر و تشریح کرسکتا ہے تو ہم دنیا کے سامنے یہ واضح کیوں نہیں کرسکتے کہ اسلام کے نظریہ قتال میں فلسفہ امن مخفی ہے۔
حاصل یہ کہ اسلام سے وابستگی میںتصلب چاہئے، نہ تساہل اور نہ ہی تشدد کیوں، کہ بڑی ہی خوبصورت بات خوستر نورانی صاحب نے اپنے اداریہ ’’اعتراف حقیقت‘‘ میں لکھی ہے کہ تصلب سے وابستہ شخص اور نظریے دونوں کی نشوونما ہوتی ہے، صلح کلیت سے شخصیت کا نقصان ہوتا اور وہ شکوک کے دائرے میں گھر جاتی ہے اور تشدد سے متعلقہ نظریہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے اور وابستہ افراد کو برے انجام بھگتنے پڑتے ہیں۔
2001ء میں پابندی کے بعد یہ تنظیم منظر نامے سے بالکل ہی غائب ہوگئی تھی اور پھر گاہے بگاہے اس کی سرگرمیوں کے تعلق سے بعض معمولی قسم کی خبریں آتی رہیں۔ لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب میں نے ملاحظہ کیا کہ انگریزی میگزین فرنٹ لائن کے 21 دسمبر 2007ء کیشمارے میں کور اسٹوری کا کالم سیمی (SIMI) کی نشوونما اور ہندوستان میں اسلام پسندوں کی بنیاد پرستی کے ارتقائی جائزہ کی نذر ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ میگزین ’’کور اسٹوری‘‘ کے تحت نہایت اہم موضوعات کا مختلف زاویوں سے جائزہ پیش کرتی ہے۔ بہرحال 16 صفحات پر مشتمل اس کالم میں تین مضامین شائع ہوئے ہیں۔ Terror Links (دہشت گرد کے رشتے) کے عنوان سے شائع مضمون میں مضمون نگار پروین سوامی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ 2001ء میں اگرچہ اس تنظیم پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن اب بھی یہ ہندوستان کے ریڈیکل اسلام پسندوں کے لئے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور اب تک ملنے والی شہادتوں سے یہی پتا چلا ہے کہ 23 نومبر 2007ء کو وارانسی، فیض آباد اور لکھنو میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں اور آندھرا پردیش، گجرات اور اتر پردیش میں ہوئے کم از کم ایک درجن بم دھماکوں میں اس کا ہاتھ ہے۔ تنظیم اسلام پسندوں کے تشدد کے لئے ایک بنیادی پلیٹ فارم کے طور پر معرض وجود میںآئی تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی تاریخ بم کے ساتھ اس کے لوافیر کا رازہنواز غیر واضح ہے۔
جنوبی ایشیا کی دوسری تنظیموں کی طرح یہ تنظیم بھی فکری طور پر ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی خوشہ چین ہے جنہوں نے 1941ء شریعت اسلامیہ پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کی غرض سے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی تھی۔ لیکن جماعت اسلامی گزرتے ایام کے ساتھ ایک ایسی ثقافتی تنظیم میں تحلیل ہوگئی جس کا مطمع نظر مسلمانوں کے مابین Neo Conservative اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ پورے ملک میں اس نے ایسے اسکولوں اور اسٹڈی سرکل کا جال بچھا رکھا ہے جس کا ہدف آزادی کے بعد کمیونزم اور سوشلزم کے مسلمانوں کے مابین بڑھتے اثرات پر بند باندھنا ہے۔ 1956ء میں اس کی ایک طلبہ ونگ SIO کے نام سے قائم ہوئی جس کا ہیڈ کوارٹر علی گڑھ تھا۔ لیکن چونکہ شمالی ہندوستان کے مسلمان فرقہ وارانہ فسادات کے ستائے ہوئے تھے اس لئے جماعت کے متشددانہ نظریات کو قبولیت عام کا درجہ نصیب نہیں ہوا اور منطقی نتیجے کے طور پر جماعت نے آہستہ آہستہ مودودی صاحب کے پرتشدد نقطہ نظر سے بریک اپ کرکے سیکولر ازم کو اپنی نئی معشوقہ بنالیا۔ جماعت اسلامی کے اصلاح پسند طبقے اور سخت گیر نظریہ کے حاملین کے مابین فکری ٹکرائو کے نتیجے میں اپریل 1977ء میں SIO کے ملبے پر سیمی کی داغ بیل پڑی اور پھر آندھرا پردیش، مغربی بنگال، بہار اور کیرالا کہ ان طلبہ تنظیموں سے رابطے قائم کئے گئے جو جماعت کے ہم نوا تھیں۔ اسی دوران دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں منظر عام پر آئیں لیکن اس کا دائرہ بہت محدود رہا جبکہ سیمی کا حلقہ اثر پورے ہندوستان میں وسیع ہوگیا۔ مغرب سے چلنے والا اسلام مخالف تندوتیز استعماری چھونکوں نے اسے اور مضبوط بنانے کا کام کیا۔ سویت یونین میں لڑنے والے امریکہ سے شہ یافتہ مجاہدین کی تنظیم نے حمایت کرنی شروع کردی اور کھلے بندوں یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام ہی کے دامن میں ساری دنیا کے مسائل کا حل ہے۔ ان حالات سے خوفزدہ ہوکر جماعت اسلامی قیادت نے اپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن اندرون خانہ دوستانہ تعلقات میں کوئی کمی نہ آئی۔ 1982ء کے بعد اس کے حامیوں کا حلقہ اور بھی وسیع ہوگیا۔ مغربی ایشیا کی مختلف تنظیموں مثلا کویت کی ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم یوتھ، سعودی عرب کی اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے داد وتحسین ملی اور ان ممالک سے بے اندازہ رقم کی آمدنی کے نتیجے میں اس نے انگریزی، اردو، ہندی میں ’’اسلامک موومنٹ‘‘ گجراتی میں ’’اقرائ‘‘ بنگالی میں روپن تار (Rupantar) تمل میں سیدی مالار (Seidi Malar) اور ملیالم زبان میں ویوکم (Vivekam) نامی میگزینیں نکالنی شروع کیں۔ سیمی نے تحریک طلبہ عربیہ کے نام سے مدارس کے طلبہ کی ایک خاص ونگ اور شاہین فورس کے نام سے 7 سال سے لے کر 11 سال کی عمر کے لڑکوں کی بھی ایک ونگ قائم کی۔
مڈل کلاس کے مسلمانوں کے درمیان اس تنظیم کی مقبولیت کی وجہ یہ رہی کہ مسلمانوں کے بچے ان کے ہندو بھائیوں کی ہی طرح الکحل، ڈرگ اور جرائم کے عادی ہوچکے تھے۔ اسلامی رجحان کی آمد کے نتیجے میں یہ بچے بری عادتوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس لئے تنظیم کو مسیحا کے طور پر دیکھا گیا۔ ایک دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ اس طبقے کے مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والی اقتصادی ترقی کے مواقع کے سلسلے میں ان کے ساتھ دھوکے کا کھیل کھیلا جارہا ہے لہذا ضروری ہے کہ حقوق کی بازیابی کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور اسی تناظر میں سیمی کاایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مافیا سے جڑے بہت سے مسلم نوجوانوں نے سیمی میں شرکت اختیار کرلی جس سے تنظیم کا مالی فائدہ تو ہوا ہی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ وہ جرائم پیشہ افراد نہیں بلکہ مظلوم مسلم امت کا دفاع کرنے والے ہیں۔
1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سیمی نقطہ نظر (Viwe Point) میں زبردست تبدیلی آئی، بابری مسجد شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر سیمی سے مربوط لشکر طیبہ کے افراد جلیس انصاری، محمد اعظم غوری، عبدالکریم تونڈا نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملے انجام دیئے۔ یوں ہی سیمی کے ممبران کی ایک بڑی تعداد نے جیش محمد، حرکت الجہاد الاسلامی جیسی تنظیمیں جوائن کرلیں۔ 1996ء میں سیمی نے یہ بیان دیا کہ جب ڈیمو کریسی اور سیکولر ازم مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے تو اب واحد راستہ یہ ہے کہ خلافت کے قیام کے لئے کوششیں کی جائیں اور محمود غزنوی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ مسلسل دو قومی نظریہ کا نعرہ، 11 ستمبر کے بعد القاعدہ کی حمایت میں مظاہرے، بامیان میں بودھ کے مجسمہ کے انہدام پر جشن جیسے اعمال نے تو اس کی جدل و قتال پسندی کو اور برہنہ کردیا۔
گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے مقالہ نگا رنے لکھا ہے کہ سیاسی اسلام کے ارتقاء کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ حکومتیں مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلامی کمیونلزم کی جانب سے صرف نظر کرتی رہی ہیں اور کمیونسٹ لیڈر پرکاش کرت کے مطابق ہندو کمیونلزم ہندوستان میں اس لئے مضبوط ہوا ہے کہ سیکولر طبقہ نے مسلم فرقہ واریت کے لئے رسی ڈھیل کررکھی ہے لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسی سیاسی پالیسی کی جس کی کوکھ سے اس قسم کی تنظیمیں جنم لیتی ہیں، بیخ کنی کے لئے محکم اور مضبوط اسٹریجی وضع کی جائے اور یقینا یہ سیکولر ہندوستان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
نئے اڈوں کی تعمیر (Building New Bases) کے عنوان سے لکھی گئی دوسری تحریر دراصل چنئی سے ٹی ایس سوبرامنیم، رونتپورم سے آرکشنا کمار، کلکتہ سے سوہرید شنکر چتوپا دھیائے کا رپورٹوں کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے بالترتیب تامل ناڈو، کیرالا اور بنگال کے تعلق سے یہ ذہن دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ صوبے اسلامی دہشت گردی کی مکمل گرفت میں ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے چیرٹیبل ٹرسٹ فار مائی نارٹیز (C.T.M) نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ آف کیرالا (N.D.F.) کرناٹکا فورم آف ڈگنٹی (K.F.D.) جیسے خیراتی اداروں پر بھی ان کے جارحانہ تیور کی وجہ سے کڑی نظر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اداروں کے چیئرمین سیمی کے سابق علاقائی صدور اور اس کے ممبران سیمی کے سابق انصار ہیں۔
پولیس کا ماننا ہے کہ تامل ناڈو میں لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی تنظیموں کے سلیپر سیل کی موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تامل ناڈو میں سیمی اس وقت لوگوں کو نظر میں آئی جب 1999ء میں ان کے دعوتی آرگن (Seithi Madd) (خبرنامے) میں جموں و کشمیر کی سرگرمیوں کو کوسوو اور چیچنیا کی آزادی تحریک کے مماثل قرار دیاگیاتھا اور اسی بناء پر اس پر پابندی بھی عائد کردی گئی تھی۔ ان دنوں سیمی کے سابق ممبران لائبریریوں، خیراتی اداروں اوردعوتی کاموں میں مصروف ہیں۔ پولیس افسران کے مطابق سعودی عرب کی زیر حمایت مختلف غیر ملکی ایجنسیاں نہ صرف انتہاپسند تنظیموںکو بلکہ انفرادی طور پر بھی مالی تعاون فراہم کررہی ہیں۔مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگرچہ ذمہ داران کی جانب سے حالات کنٹرول میں ہونے کی بات کہی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے طاری اس سکون کو پرفریب سکون سے ہی تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
کیرالا کی صورتحال تو بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنتا جارہاہے۔ یہاں سے مالدیپ کی دہشت گرد تنظیموں کو اسلحے، آتش گیر مادے سپلائی کئے جارہے ہیں۔ ایم، ڈی، ایف، این ڈی ایف جیسی سیمی سے مربوط تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ان ساری تنظیموں کا پروفائل حالات کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ہندو توکے بالمقابل اسلامی آئیڈیالوجی کو نمایاں کرتے ہیں تو کبھی کیرالا کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل کو تو کبھی استعماریت مخالف، گلوبلائزیشن مخالف ایجنڈوں کو، سیمی کے دفتر پر پولیس کے چھاپے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حوالہ چینل کے ذریعہ مغربی ایشیا سے ہر ہفتہ ایک لاکھ سعودی ریال کی رقم تعاون فنڈ کے طور پر آتی ہے۔ مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہیں کہ اس وقت کیرالا میں سب سے بڑی دہشت گردی سرگرمی یہ جاری ہے کہ نوجوانوں اور کم سنوںکی برین واشنگ ہورہی ہے اور انہیں فکری طور پر یرغمال بنایا جارہا ہے۔
مغربی بنگال کو عام طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پاک مانا جاتا رہا ہے لیکن 21 نومبر کو کلکتہ میں ایک مظاہرے کے دوران جس تیزی سے حالات خراب ہوئے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی فکری بمباری شروع ہوچکی ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ سیمی سے مربوط کچھ بنگلہ دیئشی اور اترپردیش کی تشدد پسند تنظیموں نے حالات خراب کرنے میں رول ادا کیا ہے۔ اگست 2006ء اور اپریل2007ء کے درمیان لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جماعت المجاہدین، بنگلہ دیش کے افراد بنگال میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ جون 2007ء میں کلکتہ پولیس نے تین تشدد پسندوں کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ حزب الجہاد الاسلامی بنگلہ دیش سے ان کے رابطے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حالات یہاں بھی اچھے نہیں ہیں اور مغربی بنگال بھی اب دہشت گردوں کی آماج گاہ بنتا جارہا ہے۔
تیسرے مضمون Uneasy in Paradise (جنت میں اضطراب) میں مضمون نگار پوین سوامی نے ذکر کیا ہے کہ اسلام پسندوں کی سرگرمیاں ان آئس لینڈ میں بھی فروغ پارہی ہیں، جو ان سماجی، سیاسی تنائو سےآزاد ہیں جن کی بناء پر یہ سرگرمیاں فلورش ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ فصیحو اور واحد نامی مالدپی کے دو طالب علم جامعہ سلفیہ اسلامیہ فیصل آباد گئے جہاں کے پروڈکٹ میں مختلف القاعدہ اور لشکر طیبہ کے قائدین شامل ہیں، اسی مدرسہ سے ابراہیم شیخ نامی شخص نیو کنزرویٹو روایات سے آراستہ ہوکر مالدیپ لوٹا اور صدر ماموں عبدالقیوم کی حکومت کے خلاف جوکہ سنی شفاعی مسلک کی نمائندگی کرتی ہے، آواز اٹھائی۔ سلطان پارک بم دھماکہ ہو یا کوئی اور پردہشت حادثہ ان سب میں جماعت اہل حدیث کے افراد ملوث نظر آتے ہیں۔
Fiyes میگزین کے رپورٹر احمد عبداﷲ کے مطابق ابو عیسٰی اور اس جیسے لوگوں نے سونامی سے متاثرین کی مدد میں بھی بھید بھائو روا رکھا اور ان کی یہ کوشش رہی کہ ریلیف فنڈ ان لوگوں کو دیا جائے جو ان کی مرضی کے اسلام (سلفیت) کی پیروی کے لئے تیار ہون۔
مالدیپ حکومت نے سلفی حضرات کی سرگرمیوں سے پریشان ہوکر نا کے تمام نیٹ ورک پر پابندی عائد کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ جنت سے جہنم کا راستہ بہت دور نہیں ہے۔
کور اسٹوری کی تلخیص سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔
1: میڈیا سیاسی اسلام سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے
2: شعوری یا لاشعوری طور پر پوری دنیا میں سلفی اسلام کے ذریعہ اسلام کی رسوائی اور بدنامی ہورہی ہے اور اس پورے منظر نامے میں ابن تیمیہ کی حیثیت ایک ہیرو یا ولن کی ہے
3: سرکاری ذرائع سے فراہم سلفی حضرات (میری مراد ہندوستانی سیاق میں ہے جس میں دیوبندی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث حضرات سب کسی نہ کسی طرح ابن تیمیہ کے فکری خوشہ چین ہیں) کے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کی خبر پر اگر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کیا جاسکتا تو اس کی صحت کے امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
4: جماعت اسلامی ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے خدوخال علاقائی اعتبار سے متعین کرتی ہے۔ شمالی ہندوستان میں اگر وہ ایک طرف صوفیہ اور ان کے رسوم وروایات کے خلاف سخت گیر نظر آتی ہے تو دوسری طرف جنوبی ہندوستان میں وہ میوزک، فلم اور دوسری ثقافتی سوسائٹیوں کی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ شمالی ہندوستان میں ان کا ایجنڈا اگر عموما مذہبی ہوتا ہے تو جنوبی ہندوستان میں تعمیری، تربیتی، اور کمیونسٹ و استعماریت مخالف، اور یہ علاقائی اثر ہی کا نتیجہ ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب ’’پردہ‘‘ کی اشاعت اب تک ملیالم زبان میں نہیں ہوسکی ہے۔
کور اسٹوری سے متعلق میں چندسوالات قائم کرتے ہوئے گزر جانا چاہتا ہوں۔
1: کیوں میڈیا دہشت گردی کے ساتھ اسلام کے مقدس لفظ کو جوڑتا ہے جبکہ خود اس کا ہی مانناہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا؟
2: اور اگر وہ دہشت گردی کے ساتھ اسلام کا اضافہ امتیاز کے لئے کرتا ہے تو پھر وہ ہندو دہشت گردی یا یہودی دہشت گردی کی اصلاح استعمال کیوں نہیں کرتا؟
3: اسلامی دہشت گردی اور اسلام پسندی کے ارتقائی جائزے کے لئے میگزین کا اہم ترین کالم وقف کردیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں آر ایس ایس، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے نشوونما اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر سیمی جیسی تنظیمیں سیکولر ہندوستان کے لئے چیلنج ہیں تو کیا ہندو دہشت گرد تنظیمیں ہندوستان کے ماتھے کا جھومر ہیں؟ میرے خیال میں سیکولر ہندوستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج میڈیا کا دوہرا معیار ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سکے کے دونوں رخ دکھائے جائیں۔ درحقیقت اس سلسلے میں راز پنہاں یہ ہے کہ دہشت گردی کی تو صرف دبائی دی جارہی ہے۔ امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رامسی کلارک کے مطابق اصل نشانہ پر اسلام ہے۔ امریکہ اسلام سے خوفزدہ ہے کیونکہ اسلام نے افریقی، امریکی نسل کے لوگوں کو امن، سکون، عظمت کیوں وقار اور ایمان عطا کیا ہے جس کی وجہ امریکہ کا مادی مفاد دائو پر ہے (دیکھئے رامسی کلارک کا انٹرویو، دی ہندو، 17 دسمبر 2007ئ) اور اسی بناء پر اسلام اور دہشت گردی کی افواہ پھیلائی جارہی ہے۔
دوہرا رویہ
ایسا عموما دیکھا جاتا ہے کہ جب کبھی دہشت گردی کے حوالے سے ان جماعتوں کے ملوث ہونے کی خبر آتی ہے جو سواداعظم اہل سنت و جماعت اور مسلک صوفیہ سے الگ ہیں تو فورا ہی اس طرح کی خبروں کو بے بنیاد ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پھر تصوف و صوفیا کی دبائی دی جاتی ہے۔ ابھی کچھ دنوں قبل اجمیر بم دھماکے میں کچھ سلفی حضرات کے ملوث ہونے کی خبر آئی تو فورا ہی جماعت کی جانب سے تردیدی بیان شائع ہوا اور کہا گیا کہ حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمتہ اﷲ علیہ ہم سب کے آقا اور سرتاج ہیں، لیکن دوسری طرف جب کبھی موقع ملتا ہے تو یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ صوفیہ کی ان تمام جماعتوں نے عالم اسلام کو کھوکھلا کردیا ہے (دیکھئے اداریہ مجلہ الفرقان عربی جون ، جولائی 2006ئ) اور کبھی کویت سے شائع ہونے والے سلفی مجلہ مجتمع میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ صوفیا کے تمام گروہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں، بلکہ کچھ لوچگوں کی قبائے حیا یہ کہنے میں بھی تار تار نہیں ہوتی کہ خواجہ غریب نواز تو (معاذ اﷲ) ایک سنت تھے مسلمان نہیں، ایسے حضرات سے میں صرف ایک ہی گزارش کروں گا
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم ہوجا یا سراسر سنگ ہوجا
ویسے یہ حضرات اگر اپنے رول ماڈل شیخ ابن تیمیہ ہی کی بات پر کان دھرلیں تو معاملہ حل ہوجائے لیکن اصل پریشانی ان کے ساتھ یہ ہے کہ جب یہ پھنستے نظر آتے ہیں تو امام مالک سے استعانت کرتے ہوئے ان کا یہ قول کل یوخدمن قولہ ویردالا صاحب ہذا القبر (یعنی نبی کریمﷺ کے سوا ہر شخص کچھ بات مقبول اور کچھ مردو ہے) پیش کرکے راہ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں، شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’صوفیہ کبھی اپنے زمانے کے صدر یقین میں ہوتے ہیں اس بناء پر کہ ان میں بہتوں سے اجتہاد واقع ہوتا ہے اور اس سے نزاع و اختلاف واقع ہوتا ہے۔ لوگوں کا ان کے طریقہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت صوفیا اور تصوف کی مذمت کرتی ہے اور ایک جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ حضرات انبیاء علیہم الاسلام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل و کامل ہیں۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرات اﷲ کی اطاعت میں کوشش کرنے والے ہیں… تو ان میں اپنی کوشش کے لحاظ سے سبقت کرنے والے اور مقرب ہیں اور ان میں درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں جو اہل یمن سے ہیں اور دونوں قسموں میں کچھ لوگ کبھی اجتہاد کرتے ہیں اور ان سے کبھی غلطی ہوتی ہے‘‘
(التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ سید یوسف ہاشم رفاعی کویت، اردو ترجمہ، شاہ قادری سید مصطفی رفاعی جیلانی، ص 91، مطبع الاصلاح بنگلور، سن اشاعت 2004ئ)
صوفی اسلام سے میڈیا کی محبت کا راز
اس وقت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ صوفی اسلام کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں اور یہ آواز بلند کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ صوفی اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ آخر راز کی اہے؟ کیا واقعی میڈیا صوفی اسلام کے تعلق سے سنجیدہ ہے؟ اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا ہم یہ مان لیں کہ حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ اور شیخ ابن عربی علیہ الرحمہ کی شخصیتوں اور ان کی تحریروں سے مغربی دنیا کا شغف کسی نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے؟ میرا اس سلسلے میں اپنا خیال یہ ہے کہ اس بابت بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا خام خیالی کے مترادف ہے۔ ایسا یقینا ہے کہ ان حضرات کے پیغام محبت و انسانیت سے متاثر ہوکر لوگ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور ان کی تحریروں کی مانگ مغربی مارکیٹ میں بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن یہ بھی ناقابل انکار سچائی ہے کہ ان حضرات کی تحریروں کے جو ترجمے شائع ہوئے ہیں اور ان کی شخصیتوں پر جو کام ہوئے ہیں وہ اس نوعیت کے ہیں کہ ہم جماعت صوفیہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اسے مکمل طور پر اپنا نہیں سکتے۔ کیونکہ ان کی شخصیت کو وحدت ادیان کے نمائندے اور ان کے افکار کو اس نظریئے کے ناطق کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔ ان کے حوالے سے آئی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ایک سادہ لوح مسلمان اس نتیجے تک پہنچنے میں ذرا بھی نہیں جھجکھتا کہ واقعی سارے مذاہب کی روحانیت برحق ہے اور سب کا سرچشمہ دراصل ایک ہی ہے۔ درحقیقت پوری دنیا کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کے تعلق سے مسلمانوں کا جنون ختم یا کم ہو یا کم ا زکم وہ یہ باور کرلیں کہ دنیا کے سارے مذاہب سچے ہوسکتے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل پونے کے ایک اسکالر نے مشہور انگریزی اخبار The Hindu میں لکھا تھا ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنے مسلمان دوستوں کو یہ یقین کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں‘‘ اور اسی طرح کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان شعوری یا لاشعوری طور پر وحدت ادیان کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔
آخری بات
اب ایسی میں ہم اہل سنت و جماعت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہ تو اسلام کے نام پر سلفی نظریہ جہاد کی حمایت کریں اور نہ ہی صوفیہ اور تصوف کی وہ صورت قبول کریں جسے پیش کیا جارہا ہے بلکہ سواد اعظم سے منحرف جماعتوں کی فکری کمزوریوں کو اجاگر کرکے تصوف کے رخ روشن کو دیدار عام کے لئے وا کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مفاہیم و معانی واضح کئے جائیں اور بتایا جائے کہ جہاد (بمعنی قتال) ایک مقدس فریضہ ہے جو عدل و مساوات، امن وامان کی حکمرانی، ظلم و ستم کی بیخ کنی کے لئے بوقت ضرورت ہتھیار کے استعمال سے عبارت ہے اور اس قدر تشدد سے جو بظاہر تشدد ہے اور درحقیقت امن کا پیام بر، بوقت ضرورت گریز ایک مجرمانہ قدم ہی کہا جاسکتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ستیہ گرھ تحریک کی بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاحی خطبہ پیش کرنے کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ صاحب نے اس سوال کے جواب میں کہ اگرکوئی انسان کسی انسان کے خلاف سازشوں کا جال بنتا ہے اور وہ اسی انسان سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتا ہے تو یہ تشدد ہے یا عدم تشدد۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی تشدد ہی کے زمرے میں آئے گا لیکن اگر والدین یا استاذ اپنے بچوں کے ساتھ کسی حکمت کی وجہ سے تشدد کو بروئے کار لاتے ہیں تو اسے عدم تشدد ہی مانا جائے گا۔ کیونکہ اعتبار مآل اور نتیجے کا ہوتا ہے، گاندھیائی فلسفہ عدم تشدد کا مداح اگر تشدد اور عدم تشدد کی یہ تعبیر و تشریح کرسکتا ہے تو ہم دنیا کے سامنے یہ واضح کیوں نہیں کرسکتے کہ اسلام کے نظریہ قتال میں فلسفہ امن مخفی ہے۔
حاصل یہ کہ اسلام سے وابستگی میںتصلب چاہئے، نہ تساہل اور نہ ہی تشدد کیوں، کہ بڑی ہی خوبصورت بات خوستر نورانی صاحب نے اپنے اداریہ ’’اعتراف حقیقت‘‘ میں لکھی ہے کہ تصلب سے وابستہ شخص اور نظریے دونوں کی نشوونما ہوتی ہے، صلح کلیت سے شخصیت کا نقصان ہوتا اور وہ شکوک کے دائرے میں گھر جاتی ہے اور تشدد سے متعلقہ نظریہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے اور وابستہ افراد کو برے انجام بھگتنے پڑتے ہیں۔